شمالی وزیرستان کے لاکھوں متاثرین کیلئے قابل ذکر حکومتی انتظامات نظر نہیں آئے: بی بی سی
اسلام آباد (بی بی سی) پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں تین لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود بھی متاثرین کیلئے کوئی قابل ذکر انتظامات نظر نہیں آتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق حکومتی رہنماؤں کی جانب سے ٹی وی چینلز پر متاثرین کیلئے روزانہ کی بنیاد پر امداد دینے کے اعلانات اور دعوے تو کیے جا رہے لیکن تاحال گراؤنڈ پر کچھ نظر نہیں آ رہا۔ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنیوالے افراد کیلئے نیم خود مختار قبائلی علاقے ایف آر بکاخیل کے علاقے میں صرف ایک پناہ گزین کیمپ قائم کیا گیا ہے لیکن بنیادی سہولیات کے فقدان اور دور دراز علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے متاثرین وہاں جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ خود حکومت نے بھی تصدیق کی ہے کہ متاثرین کیمپ میں اب تک صرف 100 کے قریب افراد نے پناہ لی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ وہاں جانے میں مقامی افراد کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض حکومتی اہلکار یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ وزیرستان کے لوگ اپنی روایات کے باعث متاثرین کیمپوں میں رہنا پسند نہیں کرتے تاہم وزیرستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور افسران جان چھڑانے کیلئے ایسی بے بنیاد باتیں پھیلا رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا جب کیمپوں میں پردے کا معقول انتظام موجود ہو اور دیگر بنیادی سہولیات بھی میسر ہوں تو ایسی صورتحال میں مشکلات میں گھرے ہوئے افراد بے وقوف نہیں کہ کرائے کے مکان میں رہیں یا رشتہ داروں کے ہاں پناہ لینے کو ترجیح دیں۔ وفاقی حکومت، پنجاب اور سندھ حکومت کی طرف سے متاثرین کو خیبر پی کے تک محدود رکھنے کے فیصلے سے متاثرین کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ وفاق، سندھ اور پنچاب کی حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنیوالے افراد کو انکے علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جائیگی اور اس سلسلے میں بعض خاندانوں کو ٹیکسلا کے مقام پر روک کر انہیں واپس خیبر پی کے کی طرف بھیجا بھی جا چکا ہے جس طرح شمالی وزیرستان کے باشندوں کو پہلے چار دن کرفیو کے دوران گھر کے اندر محصور رکھا گیا پھر جب انہیں علاقے سے نکل جانے کی اجازت دی گئی تو اس وقت انہیں گاڑیاں نہیں مل رہی تھیں۔ کئی خاندانوں نے پیدل 18 سے 20 گھنٹوں کی مسافت طے کی اور خواتین، بچوں اور مال مویشی سمیت بنوں پہنچے۔ راستوں میں بھوک پیاس اور دیگر مشکلات کے باعث اب تک پانچ بچوں کی ہلاکت اطلاعات بھی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر مصیبت کے مارے ہوئے اور حکمرانوں کے سخت رویّے کے شکار ایسے متاثرین کو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے استعمال کرنے کا خدشہ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی قبائلی علاقوں اور خیبر پی کے کے مالاکنڈ ڈویڑن میں فوجی آپریشن کئے جا چکے ہیں لیکن ان کیلئے پہلے سے بہتر انتظامات موجود تھے۔