• news

قادری کے احتجاج سے نمٹنے کی حکمت عملی نے حکومت کو سیاسی محاذ پر تنہا کر دیا

لاہور (تجزیہ ندیم بسرا) حکومت کی طرف سے پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے پروگرام کو موخر کروانے، بیرئر ہٹانے اور طیارے کا رخ موڑنے تک کے معاملات کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی بجائے انتظامی بنیادوں پر حل کرنے کے باعث ہر جگہ حکومت کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت کے انقلابی نعروں، ’’جینا ہو گا مرنا ہو گا دھرنا ہو گا دھرنا ہو گا‘‘ کے دیگر سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی نے حکومت کو سیاسی محاذ پر مزید الگ تھلگ کر دیا۔ یوں تو پاکستان کی تاریخ اتنی پرانی نہیں مگر یہاں دھرنوں، احتجاج کا سلسلہ کسی بھی سیاسی یا آمرانہ حکومت میں رکا نہیں۔ ہمیشہ پاکستانی ریاست میں علاقیت سے زیادہ مرکزیت کو ترجیح دی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو 1960ء کو دہائی میں ایوب خان کی حکومت کے خلاف مذہبی جماعتوں کے گٹھ جوڑ نے بحران پیدا کیا۔ اور خاص کر 1964ء کے صدارتی انتخابات اور قادیانیوں کے ایشوز نے سٹریٹ پولیٹکس (گلی محلے کی سیاست) کا آغاز کر دیا تھا۔ پھر جب پاکستان نیشنل الائنس کی بنیاد ڈالی گئی تو اس کا آغاز بھی اسی طرح ہوا تھا۔ بعد ازاں ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی تحریک ایم آر ڈی سے لے کر الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (اے آر ڈی) نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کئے رکھا۔ 2007ء میں اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے 60ججز کو معزول کیا تو وکلا سول سوسائٹی سمیت سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ 2008ء میں یہ احتجاج لانگ مارچ کی شکل اختیار کر گیا اور 2009 میں نواز شریف نے خود لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کے پروگرام کو ختم کرنے کے لئے حکومت نے اس کا حل سیاسی ڈھونڈنے کی بجائے بیورو کریٹس یا انتظامی سطح پر حل ڈھونڈا۔ بیرئر ہٹانے کے واقعات اور قیمتی جانوں کے ضیاع اور درجنوں زخمیوں نے تمام سیاسی جماعتوں (حکومت کی اپنی جماعت نکال کر) کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ پیپلز پارٹی،  تحریک انصاف،  قاف لیگ، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، سنی اتحاد کونسل، عوامی مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین سمیت دیگر  سیاسی جماعتوں نے پاکستان عوامی تحریک کو اپنی سیاسی حمایت کا یقین دلایا۔ حکومت کی طرف سے سابق صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ سمیت دیگر صوبائی وزراء اور مرکزی رہنمائوں کی طرف سے سخت بیانات دینے کے معاملے پر تیل پھینکا۔ گذشتہ روز ڈاکٹر طاہرالقادری کا طیارہ جیسے ہی پاکستانی فضا میں داخل ہوا تو حکومت نے سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے گورنر پنجاب کو بھیجا جس کے بعد معاملات کافی حد تک معمول پر آ گئے۔ سماجی حلقوں کا یہی کہنا ہے اور یہی سوچ ہے کہ حکومت کو تمام معاملات انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے سیاسی طور پر حل کرنے چاہئیں۔ اگر احتجاج، دھرنوں اور تحاریک کو سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے حل کیا جائے تو یقیناً مثبت سوچ کا رجحان جنم لے گا۔ اگر ملک میں کنٹینر سیاست ہوتی رہی تو مسائل میں اضافہ ہی رہے گا۔
قادری احتجاج تنقید

ای پیپر-دی نیشن