علامہ طاہر القادری گورنر کے سنگ روانہ
علامہ طاہر القادری کی کینیڈا سے وطن واپسی پر طیارے کو اسلام آباد سے لاہور کیلئے موڑے جانے والا میلو ڈرامہ 7 گھنٹے جاری رہنے کے بعد اس وقت اختتام پذیر ہو گیا جب علامہ طاہر القادری‘ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب و سینئر رہنما مسلم لیگ (ق)‘ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ حج ٹرمینل سے اپنے لئے خون دینے والے اور زخم کھانے والے عوامی تحریک کے کارکنوں کو ملنے اور ان کی عیادت کرنے جناح ہسپتال روانہ ہو گئے۔ علامہ طاہر القادری کی وطن واپسی پر ہنگاموں اور انسانی جانوں کے ضیاع کا جو خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا وہ خطرہ ہی رہا اور حقیقت نہ بن سکا۔ علامہ طاہر القادری نے پاکستان آمد اور ’’انقلاب‘‘ لانے کا دعویٰ کیا۔ تو پاکستانی حکمرانوں کو ’’پریشانی‘‘ کا مرض لاحق ہو گیا۔ اس مرض کا جو طریقہ علاج ڈھونڈا گیا وہ انسانی خون سے اسقدر نہا گیا کہ اب تک یہ شناخت نہیں ہو پا رہی کہ اس خونی علاج کا ’’نسخہ‘‘ کس ’’ڈاکٹر‘‘ نے لکھا تھا۔ علامہ طاہر القادری کی آمد سے پہلے ان کے گھر کے باہر موجود بیرئیرز کو ہٹا کر طاہر القادری اور ان کے ادارے کو دہشت گردوں کیلئے ’’ایکسپوز‘‘ کرنے کا مشورہ دینے والں کو یقیناً اندازہ نہیں تھا کہ اس ’’معصومانہ کھیل‘‘ کا اختتام ’’خون رنگ‘‘ ہو گا۔ علامہ طاہر القادری کے کارکنوں کی طرف سے بیرئیرز ہٹانے کی راہ میں مزاحم ہونے کی سزا انہیں پہلے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی شکل میں دی گئی اور پھر لاہور کی تاریخ کا وہ بدترین واقعہ رونما ہو جس میں پولیس نے سر‘ گلے اور چھاتی کا نشانہ لیکر عورتوں اور مردوں کو بلا تخصیص نشانہ بنایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو خواتین سمیت 8 افراد زندگی ہار گئے اور 90 سے زائد ہسپتال جا پہنچے۔ مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر گیارہ ہو گئی۔ مرنے والوں کے پسماندگان کے حوصلے کی داد نہ دینا ناانصافی ہو گی کہ انہوں نے اپنے جان سے پیاروں کی نعشیں سپرد خاک کیں اور احتجاج علامہ طاہر القادری کی آمد تک ملتوی کر دیا۔ علامہ طاہر القادری کو اس موقع پر وطن واپسی پر متوقع دہشت گرد حملے سے ڈرانے کی بڑی کوشش کی گئی مگر وہ اپنی واپسی کا وقت تبدیل کرنے پر راضی نہ ہونے اور 22 جون کو لندن سے بذریعہ دوبئی لاہور کیلئے روانہ ہو گئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو لیکر آنے والا طیارہ صبح 8 بجے اسلام آباد کی فضا میں پہنچا تو اسے اسلام آباد ائرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں ملی جہاز کچھ دیر اسلام آباد میں فضاؤں میں اڑتا رہا اور پھر ’’زمینی حالات‘‘ ناسازگار ہونے کی بنا پر اسے لاہور بھجوا دیا گیا۔
اسلام آباد ائرپورٹ کے اردگرد طاہر القادری کے استقبال کیلئے آنے والے ان کے ورکرز کئی گھنٹوں سے پولیس سے ’’نبرد آزما‘‘ تھے اور لاہور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے خوفزدہ اسلام آباد اور پنجاب پولیس جس کی مدد کیلئے آزاد کشمیر پولیس بھی موجود تھی مار کھانے پر مجبور تھی۔ مگر آج اسے کسی کو ’’خون میں نہلانے‘‘ کی اجازت نہیں تھی۔ پولیس کے دعوے کے مطابق عوامی تحریک کے ورکرز کا راستہ روکنے اور اسلام آباد ائرپورٹ تک پہنچنے کی کوشش ناکام بنانے میں ان کے 92 ساتھی زخمی ہوئے۔ طاہر القادری کو لیکر امارات ائرلائنز کی پرواز EK612 نو بجکر 35 منٹ پر لاہور ائرپورٹ پر اتری تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اب کیا ڈرامہ شروع ہونے والا ہے۔ طیارہ ائرپورٹ ٹرمینل کی نمبر ’’جیٹی‘‘ پر آکر لگا تو علامہ طاہر القادری نے اپنے 150 ساتھیوں سمیت جہاز سے اترنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاز کو اسلام آباد ائرپورٹ لیجایا جائے۔ حکومت جہاز اغوا کرکے لاہور لے آئی ہے۔ وہ اسلام آباد ائرپورٹ پر اتریں گے اور وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بذریعہ سڑک لاہور پہنچیں گے۔ کمشنر لاہور راشد محمود لنگڑیال‘ ایڈیشنل آئی جی امین وینس‘ سی سی پی او لاہور ذوالفقار‘ ڈی آئی جی لاہور وقاص نذیر‘ ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور ڈاکٹر عثمان انور‘ ائرپورٹ میجر سول ایوی ایشن‘ ائرپورٹ چیف سکیورٹی آفیسر اے ایس ایف کرنل کیانی اور دیگر افسران ائرپورٹ پر پہنچ چکے تھے۔ یہ افسران علامہ طاہر القادری کو جہاز سے اترنے پر آمادہ نہ کر سکے۔ علامہ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ انہیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ وہ پاک فوج کے نمائندوں سے بھی بات کریں گے۔ جہاز کو واپس اسلام آباد ائرپورٹ لیجایا جائے مگر حکومت اس شرط کو ماننے پر تیار نہ تھی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف بھی اس صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ وہ جلاوطن کئے جانے کے بعد جب وطن پہنچے تھے تو دونوں کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔ علامہ طاہر القادری کوئی ’’رسک‘‘ لینے پر تیار نہیں تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ’’نتائج‘‘ سے خوفزدہ حکمران اور پولیس انہیں ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ ایک طرف علامہ طاہر القادری نے ہوائی جہاز سے اترنے سے انکار کر دیا تھا دوسری طرف ان کے جانثار ورکرز ائرپورٹ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
علامہ طاہر القادری کو لیکر آنے والے امارات ائرلائنز کے طیارے کی آمد سے پہلے ائرپورٹ میں داخلہ پر سختی کر دی گئی تھی۔ ہر گاڑی میں سے مسافروں کو چھوڑنے کیلئے آنے والوں کو اتار کر گاڑی پارکنگ میں لیجانے کی اجازت دی جا رہی تھی۔ مسافروں کے ٹکٹ دیکھے جا رہے تھے۔ مگر کارکن ایک ایک کرکے ائرپورٹ لاؤنج تک پہنچنے لگے اور 10 بجے تک تعداد ’’خاطر خواہ‘‘ ہو گئی۔ عوامی تحریک کے رہنما بھی ائرپورٹ پہنچنے لگے۔ عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر رفیق عباسی‘ علامہ طاہر القادری کے قریبی عزیز راجہ زاہد محمود اور دیگر لیڈروں کی آمد پر انتظامیہ نے ڈاکٹر رفیق عباسی‘ راجہ زاہد محمود اور دو مزید عہدیداروں کو ائرپورٹ کے اندر لیجا کر طاہر القادری تک لیجایا گیا۔ انتظامیہ کی ان کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ علامہ طاہر القادری کی شرطیں برقرار رہیں اسی دوران ورکرز کی تعداد بڑھ کر سینکڑوں میں ہو گئی خواتین بھی ائرپورٹ لاؤنج تک پہنچ گئیں۔ ورکرز جیوے جیوے طاہر جیوے‘ پاک فوج زندہ باد‘ راشا راشا طاہر راشا‘ طاہر تیرا اک اشارہ‘ حاضر حاضر لہو ہمارا‘ اور دیگر نعرے لگاتے رہے۔ خواتین جن کی گود میں معصوم بچے بھی تھے۔ ائرپورٹ لاؤنج کی زمین پر دھرنا دے کر بیٹھ گئیں اور انہوں نے درود شریف کا ورد شروع کر دیا۔ اسی دوران پولیس‘ اے ایس ایف اور عوامی تحریک کے لیڈروں نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ عوامی تحریک کے کارکنوں نے ہاتھ پکڑ کر ایک زنجیر بنا ڈالی اور اپنے ورکرز اور اے ایس ایف کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا۔ پولیس نے جوان بھی سوا گھنٹے تک عوامی تحریک کے ورکرز کی ’’راہ کی رکاوٹ‘‘ بنے رہے۔ جس کے بعد پولیس کو ائرپورٹ کے ایک کونے تک محدود کر دیا گیا۔ البتہ اے ایس ایف کا حصار قائم رہا۔ دوسری طرف عوامی تحریک کے کارکن بھی اپنے ورکرز اور اے ایس ایف کے درمیان دیوار بنے رہے۔
طاہر القادری کے ایک لیڈر نے بتایا کہ وہ اور ان کے ورکرز صرف اسلام آباد نہیں لاہور اور سیالکوٹ ائرپورٹ پر بھی ’’تعینات‘‘ تھے۔ انتظامیہ طاہر القادری کے قریبی عزیز راجہ زاہد محمود کے ذریعے مسلسل علامہ طاہر القادری سے رابطے میں رہے۔ حکومت نے اپنے وزراء کو علامہ طاہر القادری سے ملنے کیلئے بھیجنا چاہا مگر انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران وزیر قانون رانا مشہود‘ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا‘ چیف سیکرٹری نوید اکرم چیمہ پرانے ائرپورٹ پہنچے تو کمشنر لاہور‘ سی سی پی او لاہور‘ ڈی آئی جی لاہور اور دیگر افسران ان سے ملنے پرانے ائرپورٹ چلے گئے۔ اسی دوران امارات ائرلائنز کے نائب صدر نے پاکستان حکومت سے رابطہ کیا اور مطالبہ کیا کہ ان کا طیارہ ’’واگزار‘‘ کرایا جائے۔ حکومت کو جسے حالات کی سنجیدگی کا اندازہ تھا۔ اس کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد طاہر القادری کو ’’بالجبر‘‘ طیارے سے اتارنے کے ’’آپریشن‘‘ میں کسی ناخوشگوار واقعہ کے نتائج کے خوف سے حکومت ’مذاکرات‘‘ کے ذریعے معاملے کو ختم کرنا چاہ رہی تھی۔ جہاز میں موجود علامہ طاہر القادری کے 150 جانثار ساتھی بھی ان کو بالجبر اتارنے کی راہ میں رکاوٹ بنتے۔ علامہ طاہر القادری تک ان کے قریبی عزیز کے ذریعے تمام حالات پہنچائے گئے۔ علامہ طاہر القادری جو پہلے طیارے کو اسلام آباد لے جانا اور صرف پاک فوج کے نمائندوں سے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ نرم ہو گئے اور گورنر پنجاب سے رابطے اور ان کے ساتھ ائرپورٹ سے اپنے گھر جانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور حج ٹرمینل کے راستے ائرپورٹ کے اندر داخل ہوئے اور علامہ طاہر القادری کے پاس طیارے کے اندر گئے۔ جہاں دونوں شخصیات تقریباً 20 منٹ اکھٹے رہیں۔ جس کے بعد علامہ طاہر القادری اور ان کے 150 ساتھی امیگریشن کیلئے جہاز سے نکل کر آرائیول لاؤنج چلے گئے۔ جہاں علامہ طاہر القادری نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ابو ذر سبطین انسپکٹر حیدر عباسی کے کمرے میں 5 منٹ گزارے اسی دوران ان کے پاسپورٹ پر امیگریشن کی پاکستان آمد کی مہر لگا دی گئی۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بھی امیگریشن کے دفتر پہنچے اور علامہ طاہر القادری کو ساتھ لیکر حج ٹرمینل چلے گئے۔ جہاں مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چودھری پرویز الٰہی اپنی بلٹ پروف گاڑی میں ان کے منتظر تھے۔ دو بجکر 55 منٹ پر اپنے لیڈر کا انتظار کرنے والے جانثار ورکرز کو خوشخبری سنائی گئی کہ علامہ طاہر القادری ائرپورٹ سے نکل کر جناح ہسپتال روانہ ہو گئے ہیں۔ جس کے بعد عوامی تحریک کے ورکرز ائرپورٹ سے روانہ ہوئے اور 5 گھنٹے 25 منٹ جاری رہنے والا میلو ڈرامہ اختتام کو پہنچ گیا۔