اسلام آباد ائرپورٹ داخلے کی کوشش
سوال یہ ہے کہ ’’شیخ الاسلام‘‘ نے لاہور کی بجائے اسلام آباد آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ طے شدہ پروگرام اور شیڈول کے مطابق سوموار کی صبح ڈاکٹر طاہر القادری کا طیارہ دوبئی سے اسلام آباد کے بین الاقوامی بے نظیر ائرپورٹ پر اترا۔ یہ الگ بات ہے حکومت نے ان کے جہاز کو اسلام آباد میں اترنے کی اجازت نہ دی۔ چنانچہ 8 چکر لگانے کے بعد طیارے کا رخ لاہور کی طرف موڑا گیا اور پھر 35,30 اور 40 منٹ بعد دوبئی کی پرواز لاہور ائرپورٹ پہ اتر گئی۔ لاہور میں جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ علامہ طاہر القادری کی لاہور میں منہاج القرآن کے عہدیداروں سے مختصر بات ہوئی جس کے فوری بعد ترجمان منہاج القرآن کی طرف سے یہ بات سامنے آگئی کہ علامہ صاحب نے لاہور ائرپورٹ پر اترنے سے انکار کر دیا۔ پہلے ان کا اسلام آباد ا جانے کا اصرار تھا وہ چاہتے تھے کہ اپنے کارکنوں کے ہمراہ پرامن طور پر لاہور آئیں۔ سوموارکا پورا دن ملک بھر میںلاہور‘ اسلام آباد کے ائرپورٹ زیر بحث رہے۔ منہاج القرآن کے کارکنوں کے ٹولے ائرپورٹ پر موجود تھے۔ تاہم بے نظیر بھٹوائرپورٹ پر اتوار کی رات سے موجود کارکنوں میں دو مرتبہ ہلچل دیکھی گئی ایک جب انہیں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے طیارے کی آمد کی ’’خوشخبری‘‘ ملی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب کارکنوں میں تازہ جو ش اور ولولہ عود آیا۔ ائرپورٹ کے قریب اور اس سے ملحقہ راستوں میں جوشیلے نعرے لگنا شروع ہوگئے تھے گو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شہر میں دفعہ 144 پہلے ہی نافذ تھی جس کے تحت چار یا زائد افراد کے اجتماع پر پابندی تھی۔ دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود راولپنڈی/ اسلام آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں سے کارکنوں کی بڑی تعداد ائرپورٹ پر پہنچ گئی تھی۔ پولیس‘ انتظامیہ‘ رینجرز اور کمانڈوز نے ائرپورٹ کو حصار میں لیا ہوا تھا۔ سخت حفاظتی انتظامات وقت کی ضرورت بھی تھے۔ ائرپورٹ چونکہ حساس مقام ہے ہوائی اڈے کی عام دنوں میں بھی غیر معمولی حفاظت کے انتظامات ہوتے ہیں تاہم جب کسی سیاسی شخصیت کی آمد ہو تو ائر پورٹ کی حفاظت کے اقدامات مزید سخت کر دئیے جاتے ہیں۔ جڑواں شہروں کی پولیس بے نظیر ائرپورٹ کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہی تھی۔ ائرپورٹ سے ملحقہ روڈ پر پولیس کی کئی مرتبہ کارکنوں سے مڈ بھیڑ بھی ہوتی رہی۔ مقامی پولیس نے جڑواں شہروں میں جو حفاظتی اقدامات اٹھائے ان میں سب سے زیادہ زور راستے بند کرنے پر رکھا گیا۔ تحریک منہاج القرآن کے قافلے روکنے کے لئے داخلی راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے جڑواں شہروں میں روزانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ افراد خصوصاً سرکاری ملازمین کی آمد و رخصت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ سمجھی جاتی ہے۔ دو روز سے سرکاری ملازمین جس بے کلی اور پریشانی کا سامنا کرتے رہے اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔ جڑواں شہروں میں ہسپتالوں‘ طبی مراکز اور دیگر مقامات تک شہریوں کی رسائی نہیں رہی۔ دونوں شہروں کی ضلع کچہریوں پر معمول کی کارروائی نہیں دیکھی گئی حیرت ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کا سارا زور حفاظتی انتظامات کے لئے راستے بند کرنے پر رہتا ہے۔ پولیس متبادل انتظام کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتی۔ راولپنڈی/ اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ مری روڈ چند منٹ کے لئے بند کر دی جائے تو ٹریفک کی صورت حال اس قدر گھمیر ہو جاتی ہے اور اس صورت سے مصیبت و تکلیف کے عجیب و غریب دروازے کھل جاتے ہیںایک تو مری روڈ میٹرو بس منصوبہ کی وجہ سے ’’ڈسٹرب‘‘ ہے۔ مستزاد اسے رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا ایسے حالات میں شہریوں کا اپنی منزل سے واپس گھروں تک لوٹنے میں بار بار اذیت کی ندیاں عبور کرنا پڑیں۔ راولپنڈی و اسلام آباد کے سنگم پر موجود ’’فیض آباد‘‘ کا علاقہ رکاوٹوں سے عجیب اور سنسان ایریا کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ کورال روڈ‘ کھنہ پل اور بہار ہ کہو اور ترنول سے ائرپورٹ کی طرف جانے والے دیگر راستوں کو کنٹینر اور مختلف رکاوٹوں سے بند کر کے شہریوں کے لئے مصیبت پیدا کی گئی۔ 22 جون اتوارکو شام سے ہی مری روڈ سے آنے والے راستے اور چوک بند تھے۔ گاڑیوں اور ویگنوں کو منزل پر جانے کے لئے راستہ نہیں مل رہا تھا پریشانیوں اور مصیبت کے مارے لوگ شہر کے مختلف بازاروں سے گزرتے ہوئے نیا راستہ تلاش کرتے نظر آئے۔ خدا خیر کرے ۔ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ حکومت اور قوم اپنی مسلح افواج کے ساتھ ہم خیال اور ہمقدم ہے قومی سیاست پر اتفاق و یکجہتی کی رداء تن چکی تھی کہ حالات میں گذشتہ منگل 17 جون کو اک نئی کروٹ آئی، منہاج القرآن سکرٹیریٹ کے قریب پولیس اور کارکنوں کے خونیں تصادم نے صورت حال کو مخصمہ کا شکار کار دیا، علامہ ڈاکڑ طاہر القادری کی وطن آمد کے بعد قومی سیاست پر بجٹ، تحریک انصاف کی دھاندلی کے خلاف مہم اور دیگر امور پس پردہ چلے گئے اب صرف اور صرف تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک اور اس کے سر براہ کا ’’تذکرہ جمیل‘‘ پوری شدومد سے جاری ہے سیاسی، عوامی، کاروباری اور تجارتی حلقوں میں سب سے زیارہ زیربحث موضوع شیخ السلام کے سیاسی مستقبل سے متعلق ہے۔ اب کیا ہو گا؟ لوگ متجسس نظروںسے ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں۔ علامہ صاحب کی پاکستان میں آئندہ سرگرمیاں کیا ہوںگی؟ وہ اکیلے ہی جمہوری انقلاب کے لیے کسی تحریک کو لانچ کریں گے یا حزب اختلاف کی جماعتوں کو ایک نیا پلیٹ فارم مہیا کریں گے۔ اس وقت جو جماعتیں ہمدردی و اظہار یکجہتی کے لئے ان کے ساتھ ہیں ان پارٹیوں کا پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر وزن کوئی خاص نہیں۔ گو مسلم لیگ ق اور چودھری برادران ، عوامی مسلم لیگ اور شیخ رشید علامہ صاحب کے ’’جمہوری انقلاب‘‘ کے حامی اور طرف دار ہیں وہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کا وعدہ بھی کر چکے ہیں۔ چودھری شجاعت، شیخ رشید اور ایم کیو ایم کا وفد تو استقبال کے لیے اسلام آباد ائیرپورٹ پر بھی موجود تھے۔ اس کے باوجود کسی بڑی جماعت کی طرف سے علامہ صاحب کی کھلی حمایت کا ابھی تک علان نا ہو سکا… ایم کیو ایم،جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی ’’خاموشی‘‘ سے ڈاکٹر صاحب کی دال گلتی زیادہ نظر نہیں آتی۔ دو روز قبل اسلام آباد پریس کلب میں اپنی ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ تحریک انصاف کے ساتھ دیگر جماعتوں کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے وہ نئے سیاسی مورچے (اتحاد) کے ذریعے سامنے آجائیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں اتحادوں کی سیاست کا سکہ چلتا رہا ۔ دنیا کی ہرریاست میں اتحاد صرف انتخابی میدان کے فاتح بننے کے لیے بنتے اور ٹوٹتے رہے مگر پاکستان شاید ایسے خطے میں آباد ہے جہاں اتحادی چھتری کے بغیر انتخابی معرکہ سرکرنا قدرے مشکل ہے …سال قبل دسویں عام انتخابات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سولو فلائٹ کے ساتھ موجود تھیں۔ تاہم بڑی جماعتوں کے ساتھ چھوٹی اور ہم خیال پارٹیاں منسلک رہیں۔مستقبل میں بھی کسی بڑے سیاسی اتحاد کا سورج طلوع ہونے کی امید نہیں ، موجودہ صورت حال میں شیخ السلام ’’جمہوری انقلاب ‘‘ کے لیے کسی اتحاد داغ بیل ڈالتے ہیں تو اس میں انہیں پیپلز پارٹی‘تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی اخلاقی حمایت تو حاصل ہو جائے گی تاہم اگر ان کا خیال ہے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان ان کے ہمنوا بن گے تو یہ شائد ممکن نہ ہو ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے فوج کے نمائندے سے ملاقات اور فوج کی سیکورٹی میں گھر جانے کا مطالبہ دراصل فوج کو بالاواسطہ سیاست میں دخل دلانے کی باتیں ہیں۔ علامہ صاحب کی ان باتوں کو جمہوری حلقے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے۔ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں کہ اگر شیخ الاسلام کی بات مان بھی لی جائے تو پھر ہر سیاست دان اسی طرح کی صورتحال میں فوج ہی کی طرف دیکھے گا… مقام شکر ہے کہ سربراہ تحریک منھاج القرآن گورنر پنجاب چوہدری سرور کے نام پہ متفق ہوئے جن سے مذاکرات کامیاب ہوئے اور ان کی قیادت و ہمراہی میں وہ طیارے سے باہر اور ائر پورٹ سے نکلے اور پھر اپنی منزل تک پہنچے… قومی سیاست اب تک اس حوالہ سے تذبذب کا شکار ہے کہ علامہ صاحب کے ’’جمہوری انقلاب ‘‘ کا مطلب کیا ہے ؟ کیا 1973ء کا آئین ایسے انقلاب کو سپورٹ کرتا ہے؟ یادش بخیر… گزشتہ سال جنوری 2013ء میں علامہ صاحب نے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا وہ اور ان کے پیارے چار روز تک وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دئیے بیٹھے رہے ۔ پھر پی پی حکومت سے تحریری معاہدہ کے بعد انہوں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس وقت شیخ الاسلام حکومت سے نتیجہ خیز مذاکرات کر سکتے تھے تو آج وہ یہ آپشن کیوں استعمال نہیں کر رہے؟ آنے والے دنوں میں سیاسی حالات کیا رخ اختیار کریں گے ؟ حالات کی شطرنج کے کھلاڑی کس کے اشارے پر کون سا داؤد ظاہر کریں گے اس بارے میں ا چند ہفتوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی ۔ دعا ہے آپریشن ضرب عضب کامیاب ہو ‘ سیاسی حالات پر ارتعاش وانتشار کی دھند چھٹ جائے اور جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے،چلتی رہے۔بقول احمد ندیم قاسمی
خدا کرے مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو