کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
آج میں بہت غمگین، بہت مایوس، بہت برہم ہوں۔ کیا یہ ملک میرے قائد، میرے آبا و اجداد نے اس لئے بنایا تھا کہ حرص و طمع کے مارے، دولت اور اقتدار کے پجاری، مادر گیتی کو نوچنے کھسوٹنے والے --- ایثاراور قربانیوں سے حاصل کئے جانے والے وطن کے حصے بخرے کریں اور اسے گِدھوں کی طرح نوچ نوچ کر کھا جائیں۔ اس کرب کو صرف وہی جان سکتے ہیں جن کے بڑوں نے اپنی جانوں کو ’’پاکستان‘‘ کے حصول کی خاطر قربان کر دیا، اپنی لاکھوں کروڑوں کی جائیدادیں آزادی کی خاطر وقف کر دیں۔ یہ درد صرف میں اور میرے جیسی وہ نسل وہ محسوس کر سکتی ہے جن کے باپ دادا نے اپنا سب کچھ آزادی کیلئے دائو پر لگا دیا۔ آزادی کی قیمت ان کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ادا کر رہی ہے۔ آج اس پورے پاکستان میں ان لوگوں کا دامن آج بھی کرپشن کی آلودگی سے پاک ہے جنہوں نے پاکستان کی تحریک و تعمیر میں لازوال قربانیاں دیں۔ اس ملک کی آزادی اور تعمیر میں جان و مال قربان کرنے والوں کی نسلوں نے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اس وطن عزیز کی سلامتی کی دعائیں مانگی ہیں مگر اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہو گی کہ آج ہم اپنے سامنے ایسے مناظر دیکھ رہے ہیں جو دل دہلانے والے ہیں۔ یہ سارا کچھ جو ہو رہا ہے صرف اور صرف حریصوں، خود غرضوں، ابن الوقتوں، غداروں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جو گھنائونے کردار رقص کر رہے ہیں ہمیں ان کی اصلیت جان لینی چاہئے اور ان سے نجات حاصل کرنے میں ہی پاکستان کی سالمیت ہے۔ میٹھی باتیں کر کے اور بڑے بڑے دعوے کر کے ملک کو جس جہنم میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے نتائج اس قدر ہولناک ہیں کہ اگر ان سے پردہ ہٹا دیا جائے تو ہر محب وطن پاکستان بلبلا اُٹھے گا۔جمہوریت جس کا اس ملک میں سب سے زیادہ رونا رویا جاتا ہے، بخدا پاکستان میں یہ جمہوریت ہمیشہ ایک عفریت کے روپ میں آئی ہے۔ جو لوگ جمہوریت کا شور مچا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں وہی سب سے بڑے جمہوریت کے دشمن ہیں، جمہوریت بذاتِ خود بہت اچھی ہے لیکن اس جمہوریت کے لبادے میں بڑے بڑے فرعون چھپے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت ایک ناکام ترین تجربہ کیونکہ جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں نے ہمیشہ آمرانہ اقدام کئے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملوکیت، بادشاہت اور آمریت کو رواج دیا ہے جیسا کہ آپ گزشتہ ایک سال سے اس کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ آپ محض بیان بازی، نعروں اور خالی خونی تقریروں پر کان نہ دھریں، کبھی حقیقت پسند بن کر سوچیں کہ ہمیں زیادہ نقصان کس نے پہنچایا ہے۔ اس ایک سال میں درجنوں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں بلکہ شاید لاکھ لوگ غیر طبعی اموات کا شکار ہوئے ہیں۔ چاروں صوبوں میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی ہے۔ جعلی ڈگریوں، جعلی مینڈیٹ اور جعلی حکمرانوں کی وجہ سے آج پورا ملک جل رہا ہے۔ قربانیاں دینے والوں کی بلاول بھٹو، حمزہ شہباز، حسین حسن نواز اور اسی طرح ان سب کی اولادوں کی جائیدادیں پاکستان کے ہر بڑے شہر سے لیکر دوبئی، ابو ظہبی، کویت، سعودی عرب، سپین، جرمنی، برطانیہ، امریکہ، سوئٹزر لینڈ میں وافر تعداد میں موجود ہے۔ ان کے اثاثوں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو لوٹ کر کھانے والوں نے لاکھوں، کروڑوں، اربوں میں نہیں کھربوں میں ہاتھ مارا ہے۔ حکومت نے قرضوں کے نام پر آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، یورپی یونین اور امریکہ سمیت چائنہ، ترکی، سعودی عرب سے جو بھاری امدادیں اور رقوم لی ہیں ان میں سے کوئی بھی رقم عوامی بہبود پر نہیں لگائی گئی۔ یہ تمام امدادیں اور قرضے لیکر موجودہ حکمرانوں نے اپنے بزنس سیٹ کئے ہیں اور اپنی نااہل اولادوں کے زنگ آلود کاروبار چمکائے ہیں۔ عوام کو ٹیکسوں، قرضوں، مہنگائی، اور بیروزگاری میں جھونک کر کیا یہ حکمران قہر خداوندی سے بچ سکیں گے۔
شیخ رشید کہتے ہیں کہ بڑی عید پر دو قربانیاں ہوں گی لیکن نظر آ رہا ہے کہ عیدالفطر سے پہلے ہی قربانی ہونے والی ہے۔ پورے ملک کو عذاب میں جھونک کر عیش کرنے والوں کا یہ آخری وقت ہے۔ موجودہ حکومت نے ہر بار فوج سے پنگا لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے عدلیہ کو بھی اپنا ماتحت بنا رکھا ہے۔ میڈیا کو بھی زیر نگیں رکھنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی بیٹی اور سمدھی کو ساتھ بٹھا کر اسلام آباد میں دھوم دھڑکے سے لیپ ٹاپ تقسیم کرتے ہیں اور بڑے ہی خوشگوار، دلچسپ، مزاحیہ انداز میں تقریر کر کے ایک رٹا رٹایا جملہ دہراتے رہے کہ جی مخالفین ٹانگیں نہ کھینچیں، پانچ برس میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے! آپ پانچ برس رہیں گے تب کی بات ہے۔ آپ پانچ ہفتے بھی کھینچ لیں تو بڑی بات ہو گی۔ آپ کا چلے جانا ہی عوام کے حق میں ہے۔ آپ کی لوٹ کھسوٹ سے پردہ اٹھنے والا ہے اور اب آپ کو بچانے والا بھی کوئی نہیں کیونکہ سارے محسنوں کو تو آپ نے ناراض کر دیا ہے۔ ارسلان افتخار جیسے کرپٹ، نااہل، راشی اور ملزم کو بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ کا وائس چیئرمین مقرر کر کے افتخار چوہدری کی جانبداری اور کرپشن کا سب سے بڑا ثبوت دیدیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کئے جانے والے مبینہ سلوک کے بعد اب اس حکومت کی یہ آخری ہچکیاں ہیں۔