• news

میٹرو موٹر ویز اورچادر، چاردیواری کا تحفظ

خادمِ پنجاب میاں شہباز شریف کو ڈاکٹر مجید نظامی نے شہباز پاکستان کا خطاب دے رکھا ہے۔ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن ان کا قومی کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران توانائی بحران کو دیکھتے ہوئے وزیر پانی و بجلی بننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ میاں نواز شریف کیلئے انہیں پانی و بجلی کی وزارت سونپنا مشکل نہیں تھا۔ وہ شاید یہ فیصلہ کر گزرتے لیکن وزارتِ اعلیٰ کے امیدواروں کی ان کے سامنے لائن لگ گئی، وہ کس کس کو انکار کرتے۔ جس کو انکار کرتے وہ منہ بسور کے بیٹھ جاتا جس طرح وزیر داخلہ نے شدت پسندوں کے خلاف اپریشن  کے فیصلے کے بعد اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور روٹھ کر گھر بیٹھ گئے۔ میاں نواز شریف نے ایسی بدمزگی سے بچنے کیلئے شہباز شریف ہی کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کے منصب پر تعینات کر دیا۔ شہباز شریف ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ دلچسپی بجلی کی پیداوار کے منصوبوں میں لے رہے ہیں۔ ان کی کاوش سے نندی پور پاور پراجیکٹ  ریکارڈ دس گیارہ ماہ کی مدت میں چالو ہوا جس سے 95 میگا واٹ بجلی کی پیدوار شروع ہوگئی اور رواں سال کے آخر تک یعنی اگلے چھ ماہ میں یہ پراجیکٹ 499 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے لگے گا۔ شہباز شریف کی کوششوں سے سولر انرجی کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے،کوئلے سے بجلی پیداکرنے کی پلاننگ جاری ہے۔ چین کے تعاون سے پاکستان میں 24 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی، ان معاہدوں  کیلئے بھی شہباز شریف سرگرم رہے ہیں۔دانش سکول شہباز شریف کا آئیڈیا تھا ان سکولوں میں عام آدمی کے بچوں کیلئے سستی اور جدید تعلیم کا نظام انہوں نے متعارف کرایا اور یہ سلسلہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ لیپ سکیم سے کی اہمیت اور افادیت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ لاہور میں میٹرو کامیابی سے چل رہی ہے اور وہ میٹرو منصوبے کو راولپنڈی اور ملتان تک پھیلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا جائے تو ایک طویل فہرست بن سکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر ان گوشوں سے پردہ ہٹایا جائے جو حکمرانوں توجہ حاصل نہ کر سکے تو ان کی بھی ایک لسٹ بن سکتی ہے۔ جس میں مہنگائی، بیروزگاری اور لاقانونیت جیسی خرافات شامل ہیں۔میٹرو موٹر ویز کی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن عام آدمی کا بڑا مسئلہ روٹی ہے وہ بھی شہباز شریف نے سستی روٹی سکیم سے حل کرنے کی کوشش کی لیکن 2013ء مئی کے انتخاباب میں کامیابی حاصل کر نے کے بعد اس سکیم کو دوبارہ شروع نہیں کیا گیا۔ روٹی سے بھی بڑی ضرورت چادر اور چار دیواری کے تحفظ کی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس  طرف توجہ مرکزی حکمرانوں کی ہے نہ ہی پنجاب کے حکمرانوں سمیت کسی دوسرے صوبے کی حکمرانوں کی۔ لاہور میں دو سال کی بچی سنبل سے بربریت ہوئی۔ اس کے مجرموں کی ویڈیو سامنے آ گئی اس کے باوجود بھی پولیس چھ سات ماہ میں مجرموں تک نہیں پہنچ سکی۔ اس کے بعد ایسے جرائم میں اضافہ ہو گیا۔ جرائم  میں کمی صرف اور صرف عبرتناک سزائوں سے آسکتی ہے۔  مسلم  لیگ (ن) کی حکومت نے شدت پسندوں کی ایک دھمکی پر ان کے سزا یافتہ ساتھیوں کی پھانسیوں پر عمل درآمد روکنے کیلئے سزائے موت کے تمام قیدیوں کی سزا بھی معطل کر دی۔ جس سے دہشتگردی اور قتل  جیسے قبیح جرائم میں ملوث مجرم بھی بچ گئے جو دیگر جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے زیادتی کا شکار خواتین سے اظہار ہمدردی کا شعبہ خادم پنجاب کے سپرد کر رکھا ہے۔ وہ جہاں ایسی زیادتی کا سُنتے ہیں زیادتی کا شکار لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھنے پہنچ جاتے ہیں اگر زیادتی کے بعد لڑکی کو قتل کر دیا گیا ہو تو اس کے والدین کی اشک شوئی کرتے ہوئے ان کیلئے لاکھوں روپے کی امداد کا اعلان کر کے لوٹتے اور مجرموں کو عبرت کا نشان بنانے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں ایک لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، وہ انصاف انصاف پکارتی رہی، پولیس اور بااثر لوگوں نے انصاف کو یرغمال بنا لیا تو مظلوم لڑکی کیلئے خود کشی ہی ایک آپشن  تھا سو اس نے خود کو آگ لگا کر پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے دعووں کی قلعی کھول دی۔  شہباز شریف چھ سال سے وزارتِ عُلیہ کے منصب پر متمکن ہیں بلاشبہ اس دوران ریپ کے ہزاروں واقعات ہو چکے ہیں اگر ان کی طرف سے پہلے واقعہ کا سخت نوٹس لیا جاتا اور مجرموں کو عبرت کی داستاں بنا دیا جاتا تو یہ بُرائی اور بدی اسی دن اپنی موت آپ مر جاتی۔ چند روز قبل ایک لڑکی کو شیخوپورہ سے ڈیرہ غازی خان لے جاکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اس نے بھی انصاف نہ ملنے پر اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی۔ کل ایک اور لڑکی کو زیادتی کے بعد پھندہ دے کر درخت سے لٹکا دیا گیا، اس کا ملزم پکڑا گیا جس نے اعتراف جرم کر لیا۔ یہ بھی ہمارے سسٹم میں سقم اورسب سے بڑھ کر حکام کے بے حسی کے باعث سزا سے محفوظ رہے گا۔ اس کا سارا قصور وار صرف شہباز شریف کو ہی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ دوسرے صوبوں میں بھی چادر اور چار دیواری کے تحفظ پر یکساں بے حسی پائی جاتی ہے، اس حوالے سے مرکز کو کڑے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ موٹر وے، بُلٹ ٹرین کے منصوبے اور میٹرو اپنی جگہ، چادر اور چار دیواری کا تحفظ عوام کی پہلی ضرورت ہے، حکمرانوں خصوصی طور پر خادم پنجاب کو سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہونے کے ناطے اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن