• news

انقلاب سے ذرا پہلے؟

مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہو گا۔ میں یہ کالم دوپہر کے وقت لکھ رہا ہوں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری لاہور کے ائر پورٹ پر طیارے سے باہر آ گئے ہیں۔ انہوں نے فوج سے رابطے کئے بغیر باہر نہ آنے کا فیصلہ سنایا تھا مگر پھر گورنر پنجاب چودھری سرور کے ساتھ بات چیت اور ان کے ساتھ گھر جانے کے لئے حامی بھر لی۔ ان کے لئے چودھری پرویز الٰہی نے بلٹ پروف گاڑی بھجوائی اور تاکید کی کہ میری گاڑی میں آئیں۔ چودھری سرور پر قادری صاحب نے اعتماد کا اظہار کیا اور یہ ان کے بہت قابل اعتبار انسان ہونے کی گواہی ہے۔ ڈاکٹر قادری شریف برادران اور ان کے وزیروں خاص طور پر پرویز رشید پر اعتماد کرنے کے لئے بالکل تیار نہ تھے ہم چودھری سرور کو سلام کرتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے بھی اچھا کردار ادا کیا۔ حکومت اور اپوزیشن میں ایسے روابط ہوں تو ملک و قوم کے لئے بہتر ہوں۔ چودھری سرور برٹش پارلیمنٹ کی روایات پاکستان میں پیدا کریں۔ انہوں نے گورنر ہائوس کی شکل و صورت بدل دی ہے۔ اسے ایک عوامی علمی ادبی تخلیقی فلاحی جگہ بنا دیا۔ ڈاکٹر قادری نے طیارے سے باہر آ کے چودھری سرور سے ملاقات کی اور یہ ہنگامہ اپنے انجام کو پہنچا۔ چودھری سرور کی شخصیت میں جو سچائی شریف برادران کے لئے کمٹمنٹ اور سب سیاستدانوں کے ساتھ ایک دوستانہ ورکنگ ریلیشن شپ کا انداز ہے وہ بے مثال ہے۔ وہ ہمیشہ فلاحی اور عوامی کاموں میں لگے رہے ہیں۔ اس میں کسی حکومت کی کوئی شرط نہیں ہے۔ حکومت جو بھی ہے وہ اعلیٰ حکمت عملی کے قائل ہیں جبکہ حکمران صرف حکومت عملی سے کام لیتے ہیں۔ حکومت اور حکمت میں فاصلے کم کرنے کے لئے فیصلے چودھری سرور کے ساتھ مل کر کرنا چاہئیں۔ میں انہیں گورنر پنجاب نہیں کہتا۔ چودھری سرور کہتا ہوں۔ یہی بات ان کے ایک اور اچھے گورنر کی ساری صفات کی ضمانت ہے۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں گورنر ہائوس صرف پارٹی دفتر بن کے رہ گیا تھا۔ ’’جیالا ہائوس‘‘۔
میرے خیال میں جو کچھ ہوا وہ غیر ضروری اور غیرسیاسی تھا۔ شہباز شریف منہاج سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں ہونے والی پولیس گردی اور درندگی سے لاعلم تھے تو کیا ہے۔ بے نظیر ائر پورٹ پنڈی سے علامہ اقبال ائر پورٹ لاہور تک تمام کارروائی سے نواز شریف کو بھی لاعلم رکھا گیا۔ تمام تر شرارت کے انچارج پرویز رشید تھے۔ شہباز شریف نے تو لاڈلے بیورو کریٹ توقیر شاہ اور وزیر قانون اور لاقانونیت رانا ثنااللہ کو الگ کر دیا جبکہ یہ دونوں ان کے بہت عزیز تھے۔ کیا نواز شریف چہیتے بیورو کریٹ فواد حسن فواد اور غیردوستانہ انداز کے وزیر شذیر پرویز رشید کو الگ کریں گے۔
ایک دن پہلے پرویز رشید نے کہا کہ ہم نہ کسی کو گرفتار کریں گے نہ طیارے کا رخ موڑیں گے مگر طیارے کو اغوا کیا گیا۔ ایمریٹس ائر لائنز نے بین الاقوامی قانون کے تحت مقدمہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ پرویز رشید تو کہیں گے کہ یہ مقدمہ بھی ڈاکٹر قادری کے خلاف ہو جبکہ یہ مقدمہ پرویز رشید کے خلاف درج ہونا چاہئے۔ اس وزیر نے نواز شریف حکومت کو جو نقصان مسلسل پہنچایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب ڈاکٹر قادری نے کہا کہ میرے کارکنوں کو کچھ ہوا تو نماز جنازہ وزیراعظم ہائوس میںہو گی۔ پرویز رشید نے پیش کش کر دی کہ میں نماز جنازہ پڑھائوں گا۔ پرویز رشید نے ڈاکٹر قادری کی آمد کو ضرب عضب سے تشبیہ دی ہے جو بہت شرانگیز ہے۔ اس کے مقابلے میں پرویز رشید کا سیاسی غیض و غضب ہو تو بات رہ جائے گی۔ ورنہ یہ پاک فوج کی توہین کے مترادف ہے۔ وہ اب بھی طالبان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر قادری بریلوی لوگوں کے قائد ہیں اور طالبان دیوبندی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی دیوبندی ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی پارٹی کے لوگوں کو وزارتیں دے دی ہیں۔
ڈاکٹر قادری نے ’’صدر‘‘ زرداری کے زمانے میں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا۔ ڈی چوک میں دھرنا دیا۔ مگر حکومت کی طرف سے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا گیا اور معاملہ ختم ہو گیا۔ معاملہ تو اب بھی شاید وقتی طور پر ختم ہو جائے مگر ابھی بہت سے موقف اور بے قراریاں مچل رہی ہیں جو ردعمل پرویز رشید کی قیادت میں حکومت پاکستان نے دکھایا ہے وہ ردی عمل بن کر رہ گیا ہے۔ مگر سب کچھ ردی کی ٹوکری میں نہیں چلا گیا ہے۔ ابھی خاک و خون اور آگ کا گٹر دہک رہا ہے۔ شعلے ابل رہے ہیں۔ حکومت اور پولیس کی ساکھ تو جل کر راکھ ہو گئی ہے۔ اب راکھ اڑانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جو بہت خطرناک ہے۔
شیخ رشید اور چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ 12اکتوبر 99ء کو بھی طیارے کے ’’اغوا‘‘ کا ڈرامہ کیا گیا تھا۔ اب پھر اس کا اگلا منظر دکھایا جا رہا ہے۔ اللہ کرے نظام اور قوم اور جموریت کا منظر نامہ دھندلا نہ جائے۔
اس ساری صورتحال میں پولیس بہت گندی ہوئی ہے۔ انہوں نے گندگی پھیلائی بھی بہت ہے۔ جو کچھ منہاج سیکرٹریٹ میں ہوا اس کے لئے شہباز شریف بھی بہت رنجیدہ ہوئے تو پھر اب یہ کیا کر دیا گیا ہے۔ تب پولیس گردی دہشت گردی سے آگے چلی گئی تھی۔ پولیس نے بزرگوں کی داڑھیاں نوچیں۔ لوگوں کو سڑکوں پر لٹا لٹا کے مارا گیا۔ اب لوگوں نے پولیس والوں کو سڑکوں پر لٹا لٹا کے مارا۔ پہلے کہا گیا پولیس والوں کو  کہ لوگوں کو کٹو۔ اب انہیں کہا گیا ہے کہ تم کٹ کھائو۔ پولیس کا امیج پہلے بھی تباہ و برباد تھا۔ اب رہی سہی کسر بھی نکل گئی ہے۔ اب کون پولیس پر اعتماد کرے گا۔ مجھے لگتا ہے مگر اللہ کرے ایسا نہ ہو کہ اب کوئی پولیس والا لوگوں کے ہتھے چڑھے۔ بڑی مار کھائے گا۔ جی ٹی روڈ او رموٹر وے بند کی گئی، راستے بند کر دیے گئے۔ ایک آدمی کے آنے پر اتنی دہشت زدگی۔ اب تو دہشت زدگی دہشت گردی سے بڑھ گئی ہے۔ دہشت زدہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ حکمران بے رحم اور سنگدل ہیں۔ حاکم اور ظالم ایک جیسے ہیں۔ وہ پولیس کے ذریعے حکومت کرتے ہیں۔ پولیس ان سے بھی بڑی ظالم ہے۔ پولیس حکمرانوں کی ملازم ہے اور لوگوں کو ملزم سمجھتی ہے۔
میڈیا نے ایک ایک منظر صاف صاف دکھا دیا ہے۔ لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک بات بڑی عجیب ہے۔ سیاستدان کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت اعلیٰ آمریت سے اچھی ہے۔ انہوں نے جمہوریت کو بدترین تو مان لیا ہے۔ بدترین جمہوریت کے مناظر بھی لوگوں نے دیکھ لئے ہیں جو اعلیٰ آمریت ہے وہ ابھی آئی نہیں ہے۔ سیاسی یعنی جمہوری حکمران اور فوجی حکمران یعنی آمر میں کوئی فرق نہیں۔ فوجی اور سیاسی حکومت  میں لوگوں کا بھلا نہیں ہوا ہے۔ مرزا غالب یاد آتا ہے:
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
امریکہ کے لئے دونوں حکمران ایک جیسے غلام ہیں۔ امریکی یعنی عالمی اور اب بھارتی ایجنڈے پر سب متفق ہیں۔ بھارت کے لئے عمران خان نواز شریف سے پہلے دو زانو ہو چکا ہے۔
شاہ محمود قریشی کہتے ہیں  کہ حکومت کے اندر کچھ ایسے لوگ ہیں جو غلطیاں کرواتے ہیں۔ اس بارے میں انہیں اندر سے  خطرہ  ہے۔  میں نے ان سے فون پر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پرویز رشید سے بات کر لیں۔ شاہ محمود قریشی بتائیں کہ تحریک انصاف کے اندر وہ کون لوگ  جو عمران سے غلطیاں کروا  رہے ہیں۔ ڈاکٹر قادری نے پہلے بھی اسلام آباد دھرنے سے اسی طرح اپنا کام ختم کیا تھا۔ آج بھی انہوں نے اپنے مطالبوں سے پیچھے ہٹتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ انہیں معلوم ہے کہ پیچھے کیسے ہٹا جاتا اور آگے کیسے بڑھا جاتا ہے۔ انقلاب سے پہلے جو عذاب آیا ہے اس کا انقلاب کے ساتھ کیا تعلق ہے۔  باتیں قادری صاحب کی ٹھیک ہوتی ہیں تو پھر غلطی کہاں ہے۔ بہرحال چودھری سرور کا  کردار قابل تعریف  ہے مگر وہ بھی تو حکومت کے آدمی ہیں؟ مگر ناقابل اعتماد سچے اور اچھے  آدمی بھی ہیں۔ انہیں شریف برادران  نے کئی مخالفتوں  اور رکاوٹوں کے بعد اپنا گورنر بنایا ہے۔  وہ حاکموں اور محکوموں دونوں کی توقعات پر پورے اترے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن