گلوبٹ‘ جگاگجر، محمدخان اور چراغ بالی
گلو بٹ جیسے کردار تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر دور میں رہے ہیں۔ گلو بٹ کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ بدمعاش ہے۔ بدمعاش وہ ہے جس کا معاش ”بد“ ہو یعنی جس کی روزی برے کاموں پر منحصر ہو۔ ایسے لوگوں کو بدنصیب بھی کہا جا سکتا ہے۔ میں اسے گلو بٹ کے بجائے ”گلو بادشاہ“ لکھوں گا۔ جگا گجر کو لوگ ”جگا بادشاہ“ کہہ کر پکارتے تھے۔ گلو بادشاہ اور جگا بادشاہ میں بہت فرق ہے۔ جگا بادشاہ پولیس کا مخبر نہیں تھا بلکہ پولیس اس سے خوف زدہ رہتی تھی۔
جگا گجر ”بدمعاش“ کے حوالے سے مشہور تھا۔ ”جگا ٹیکس“ کی اصطلاح آج تک رائج ہے۔ جگا گجر 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ ان دنو ں لاہور کے ایس ایس پی حاجی حبیب الرحمان (مرحوم) تھے۔ خیر اور شر، شروع ہی سے چلتاآ رہا ہے۔ ہر شخص میں دونوں قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ یہ ان پر منحصر ہے کہ ان میں سے کس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ گلو بٹ تو ابھی منظر عام پر آیا ہے۔ اسکی ایک ہی ”بدمعاشی“ لوگوں نے دیکھی۔
اس میں اور کون کون سی ”خوبیاں“ ہیں۔ اس کا علم پولیس والوں کو ہو گا یا ان کو جن کیلئے یہ ”کام“ کرتا ہے۔ جگا گجر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسکے گھر شام کو جو جگا ٹیکس پہنچتا تھا، اس میں غریبوں اور بیواﺅں کا بھی حصہ ہوتا تھا۔ اسکے ٹارگٹ امیر اور صنعتکار ہوتے تھے۔ وہ غریبوں سے نہیں چھینتا تھا۔ جگا گجر کو پولیس مقابلے میں پولیس کے ایک گلو بٹ یعنی مخبر نے مروایا۔ ”جگا مارا گیا“ کہا جاتا ہے اسکی لاش کو دیکھنے کیلئے ایک لمبی قطار لگ گئی۔ لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی جگا مر گیا ہے۔ محمدخان بھی ایک کردار گزرا ہے جو ”محمد خان ڈاکو“ کے نام سے مشہور تھا۔ وادی سون تحصیل چکوال، تحصیل پنڈی گھیب اور تلہ گنگ میں محمد خان کا حکم چلتا تھا۔ ان علاقوں پر مشتمل اس نے اپنی ریاست بنا رکھی تھی جس کا یہ بے تاج بادشاہ تھا۔ اخبارات میں اس کو ”وادی سون کا بے تاج بادشاہ“ لکھا جاتا تھا۔ اسکی دہشت اتنی زیادہ تھی کہ طویل عرصہ تک سرگودھا سے راولپنڈی تک رات کے وقت بسیں نہیں چلتی تھیں۔ حکومت نے اس کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس کے سرکردہ افسروں کی نگران میں ہزاروں سپاہیوں پر مشتمل خصوصی گاردیں ترتیب دیں جو جدید اسلحہ اور سامان سے لیس تھیں لیکن یہ شخص اپنی آخری روپوشی کے دور میں گیارہ ماہ کی طویل جدوجہد کے بعد بھی پولیس کے ہاتھ نہیں لگ سکا تھا۔ یہ اپنی عدالتیں لگاتا تھا۔ اس بارے میں محمد خان کا کہنا تھا کہ میں نے جس طرح قانون و انصاف کا خون ہوتے دیکھا، انسانیت کی توہین اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ میرے ساتھ جو ظلم وستم روا کھا گیا اس نے نفسیاتی ردعمل کے طور پر مجھے ایک ایسا نظام قائم کرنے کی تحریک کی جس میں کمزور اور طاقتور برابر ہو سکیں۔ جہاں رشوت، سفارش اور ٹیلی فون پر انسانی قسمت کے فیصلے نہ ہوں۔ ظالم کو کڑی سزا ملے اور مظلوم کو اس کا حق دلوایا جائے۔ محمد خان کو پھانسی کی سزا معاف ہو گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ میری تمام رقابتیں، رنجشیں اور دشمنیاں ختم ہو چکی ہیں۔ رہا ہو کر ملک و قوم کی خدمت کروں گا۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ انسانیت دکھاﺅں گا۔ محمدخان 29 ستمبر 1995 کو طبعی موت مرا۔ اسے آبائی گاﺅں ڈھوک مصائب تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال میں دفن کیا گیا۔ ایک کردار چراغ بالی بھی تھا جسے خوف و دہشت کی علامت کہا جاتا تھا۔ چراغ بالی ہڈالی ضلع خوشاب کا رہنے والا تھا۔ بھارت کے معروف ادیب، کالم نگار خوشونت سنگھ کی پیدائش قصبہ ہڈالی چراغ بالی 1928 میں قصبہ ہڈالی کے ایک متوسط خاندان حیات بالی کے گھر پیدا ہوا۔ اس خاندان کا آبائی پیشہ کاشتکاری تھا۔ چراغ بالی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے قتل، ڈاکہ زنی کی وارداتیں کرنے لگا۔ 1956 میں پولیس نے اسکی ہسٹری شیٹ کھول کر اسے انتہائی خطرناک اشتہاری قرار دے دیا۔ 1956 سے 1962 تک چراغ کے عروج کا دور تھا۔ اس وقت علاقہ میں دو ضرب المثل مشہور ہوئیں۔ کسی کا رعب و دبدبہ اور ٹھاٹ باٹ بتانا ہوتا تو کہتے ”توں کوئی نواب آف کالا باغ ایں“ اور اگر کوئی بدمعاشی دکھانے کی کوشش کرتا تو کہتے ”توں کوئی چراغ بالی ایں“۔ چراغ بالی ایک خطرناک ڈاکو کے روپ میں علاقہ میں راج کرتا رہا۔ جگا گجر کی طرح چراغ کا شر کے ساتھ ساتھ خیر کا پہلو بھی تھا یعنی وہ علاقہ کے مظلوم لوگوں کی دادرسی کرتا اور انہیں ان کا حق دلواتا۔ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں میں تقسیم کرتا۔ چراغ نے کبھی غریب آدمی کو تنگ نہیں کیا اور نہ کسی عورت کی عزت کو پامال کیا۔ بلکہ خواتین کا احترام کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ غریب لوگوں کی ہمدردیاں چراغ کے ساتھ تھیں۔ وہ دشمنوں کا دشمن اور دوستوں کا دوست تھا۔ چراغ جون 173 میں پشاور سے گرفتار ہوا۔ مجموعی طور پر اس نے 35 افراد کو قتل کیا۔ چراغ بالی تقریباً 25 سال جرائم کی دنیا سے منسلک رہا۔ 15 جون 1973 کو ”نوائے وقت“ اور دیگر اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں۔ سرخی تھی ”سرگودھا کے بدنام ڈاکو اور قاتل چراغ بالی کو پشاور میں گرفتار کر لیا گیا۔“ چراغ بالی پر دو فلمیں بنیں۔ دونوں فلموں میں چراغ کا کردار سلطان راہی نے ادا کیا۔ گلو بٹ نے جو حرکت کی اسکے کھاتے میںتو شر ہی شر لکھا گیا۔ کہیں بھی خیر کا پہلو نظر نہیں آیا۔ طیبہ ضیا نے 20 جون کو ”نوائے وقت“ میں اپنے کالم میں درست لکھا کہ ”اسلام میں جہاد ہو یا سیاست، ”گلو بٹ“ کے کردار کی گنجائش نہیں۔