جائے ولادت نبی کعبہ کے پہلو میں مقدس ترین مقام
چشم بینا ہو تو خانہ کعبہ میں تجلیات الہی کی جلوہ گری ہر لمحے ہر کون محسوس کی جا سکتی ہے خانہ کعبہ کے پہلو میں ایک ایسا مقام جو تقدس کے اعتبار سے بیت اللہ ہی کی طرح مسلمانان عالم کی عقیدت و محبت کا مرکز ہے یہ جائے ولادت سردار انبیائ ہے جسے کتب خانہ کی شکل دے دی گئی ہے یہ کتب خانہ شعیب ابی طالب کے آغاز میں حضار بروہ کے مابین سعی کی جگہ کے مشرق کی جانب واقع ہے اسے شیخ عباس قطان سے 1950ءبمطابق ہجری 1370ءمیں بنایا تھا وزارت شئسون اسلامیہ اس کی سرپرستی کی ذمہ داری ہے جس میں بہت سی کتب، خطوطات اور تاریخی نوادرات محفوظ ہیں دو منزلہ اسی عمارت کی کھڑکیاں لکڑی کی ہیں اور جن پر کلیجی رنگ ہے جو شروع ہی سے مکہ معظمہ کی عمارت کا معروف رنگ ہے۔ یہ حضور نبی کریم کا آبائی گھر تھا جہاں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی اور جب آپ مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے حضرت عقیلؓ بن ابوطالب نے اسی میں رہائش اختیار کر لی جس میں وہ اور ان کی اولاد ایک عرصہ تک مقیم رہے پھر وائی بھر حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف ثقفی نے اسے خرید کر اپنے گھر دارالبیضاءکا حصہ بنایا 1370ءہجری میں جب خلیفہ ہارون الرشید کی والدہ خیزران نے حج کیا تو انہوں نے اسے جائے نماز بنایا وہ بیت اللہ کے بعد اکثر نمازیں یہاں ادا کیا کرتی تھیں تاہم بعض علماءاور محقیقین نے اسے جائے ولادت رسول کریم ہونے سے اختلاف بھی کیا ہے بہر حال نبی کریم کی بعض ذاتی زیر استعمال اشیاءمثلاً برتن، ہتھیار اور بعض دیگر اشیاءخانہ کعبہ کے اندر محفوظ کی گئی ہیں جن کی زیارت سے صرف خانہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل کرنے والے عام طور پر سربراہان مملکت و حکومت کی شاد کام ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں بالخصوص مکہ معظمہ میں 24، 25 سال سے مقیم عزیزم عبدالاسلام جو مکہ معظمہ کی قدیم درس گاہ مدرسہ صدیقہ سے فارغ التحصیل ہیں کے بقول یہ معتبر اشیاءخانہ کعبہ کی دیواروں کے ساتھ لٹکی ہوئی حالت میں محفوظ کی گئی ہیں بے شک ان اشیاءکو محفوظ کرنے کی جگہ سب سے بہتر امان یہی ہو سکتی تھی۔ اسی طرح کچھ اشیاءترکی کے مشہور ساحلی شہر استنبول کے عجائب گھر میں محفوظ کی گئی ہیں جن میں خلیفہ سوم داماد رسول کریم حضرت عثمان غنیؓ کا وہ قرآن پاک کا نسخہ بھی ہے خارجیوں کے حملہ کے وقت آپؓ جس کی تلاوت فرما رہے تھے اور قاتلانہ حملے کے نتیجے میں جو آپؓ کے خون سے آلودہ ہو گیا تھا باقی دنیا میں عمامہ، چوغہ، پگڑی، نعلین اور موئے مبارک وغیرہ کے نام سے جو اشیاءپائی جاتی ہیں یہ سب کی سب منسوب یہ ہیں عزیزم عبدالاسلام نے ممتاز سکالر جناب ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ کی ہدایت پر بڑی خوش دلی کے ساتھ مقامات مقدسہ کی زیات کرائی اور ایک جگہ کے حوالے سے روایات تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالی غار حرا اور غار ثور تک صحت مند آدمی کو دو سے ڈھائی گھنٹے درکار ہیں تاہم جوش عقیدت میں لوگ ان دونوں غاروں کے دھانوں تک پہنچتے ہیں غار حرا ، غار ثور سے زیادہ بلند ہے نبی کریم بعثت نبوی تک اسی غار میں ذکر الہی میں مصروف رہا کرتے ہیں۔
سب سے پہلے امام الملائیک حضرت جبرائیلؑ سے آپ کی پہلی ملاقات ہوئی اور اس مقدس مقام پر آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اورغار ثور وہ جگہ جہاں آپ نے مدینہ منورہ ہجرت کرتے وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ پناہ لی تھی قریش مکہ آپ کی تلاش میںاس غار کے دھانے تک پہنچ گئے مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکڑی نے غار کے دھانے پر جالا بن کر اور کبوتری نے چشم زدن میں گھونسلا بنایا اور انڈے دے کر ان پر بیٹھ گئی اس طرح قریش مکہ گمراہ ہو گئے اور آپ تک نہ پہنچ سکے۔ حج میں تو بعض اوقات ممکن نہیں ہوتا البتہ عمرہ پر جانے والے اکثر قدرت ان دونوں غاروں کی زیارت ضرور کرتے ہیں توب سے خوب ترے مصداق سعودی حکومت حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کو سہولتوں کی فراہمی کے لئے سال بھر منصوبے بنانے اور عملی اقدامات میں مصروف رہتی ہے۔