• news

مشرف نے خود ایمرجنسی لگائی‘ شوکت عزیز‘ کابینہ‘ فوجی افسر‘ پی سی او جج مددگار نہیں : سیکرٹری داخلہ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + نمائندہ نوائے وقت+ نیوز ایجنسیاں) سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے کہا ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ میں ایسی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرنے کے لئے جوائنٹ چیفس آف سٹاف، وزیراعظم شوکت عزیز، کابینہ اور کور کمانڈر سے مشاورت کی۔ انکوائری رپورٹ میں صرف پرویز مشرف کو ہی ملزم نامزد کیا گیا اس لئے ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کی۔  سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ مذکورہ بالا فوجی افسروں، پی سی اوجج، گورنرز اور کابینہ کو مشرف کا مددگار؍ معاون قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مشرف کو اس  لئے ملزم بنایا گیا کہ صرف انہوں نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا حکم جاری کیا۔  سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے بیان دیا جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور کور کمانڈر کا وزارت دفاع کے ذریعے بیان لینے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بارآور نہ ہو سکی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے سوال کیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ فیڈرل رولز آف بزنس میں مسلح افواج وزارت دفاع کے ماتحت آتی ہیں۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ہاں یہ بات درست ہے۔ فروغ نسیم نے پوچھا کہ باقی سروسز چیفس کو کیوں چھوڑ دیا اور اکیلے پرویز مشرف کے خلاف شکایت کیوں دائر کی، سیکرٹری داخلہ نے جواب دیا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کا حکم نامہ انہوں نے ہی جاری کیا تھا۔ فروغ نسیم نے استفسار کیا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 6 کی ذیلی شق 2 میں موجود نہیں کہ کارروائی معاونت کرنے، مدد کرنے اور سازش کرنے والوں کے خلاف بھی ہو گی۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ہاں یہ بات درست ہے ، مگر انکوائری رپورٹ میں صرف پرویز مشرف کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ فروغ نسیم نے سیکرٹری داخلہ شاہد خان سے سوال کیا صرف پنجاب اور سندھ کے گورنروں سے بیان کیوں لیا گیا؟ سیکرٹری داخلہ نے بتایا باقی دو گورنروں سے بیان کے لئے کوئی قانونی مشورہ نہیں ملا۔ تفتیش کے تقاضے سندھ اور پنجاب کے گورنروں کے بیانات کے بعد پورے ہوگئے۔ کسی اور جنرل کے خلاف شواہد نہیں ملے کہ ان پر مقدمہ قائم کیا جائے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت 2 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔ تحقیقاتی ٹیم کوئی بھی ایسا ریکارڈ پیش نہیں کرسکی جس سے یہ ثابت ہو کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل وزیراعظم سے مشاورت کی گئی تھی اور نہ ہی میں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو یہ ہدایت کی کہ وہ ایسا ریکارڈ پیش کریں جس سے ظاہر ہو کہ صدر نے وزیراعظم سے مشاورت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ ایف آئی اے، وفاقی حکومت اور سیکرٹری داخلہ کی جانب سے کوئی دستاویزات چھپائی گئیں یا کوئی ریکارڈ ضائع کردیا گیا۔
غداری کیس

ای پیپر-دی نیشن