• news

میرے شہروں میں چلے ہولے سے پھر ’’باد نسیم‘‘

روحانی دانشور قبلہ نسیم انور بیگ مرحوم کی برسی اسلام آباد میں ہوئی۔ صدارت جنرل حمید گل نے کی۔ قرآن خوانی کے بعد تقریب بھی ہوئی جس کی کمپیئرنگ دانشور استاد اور نوائے وقت کے سینئر کالم نگار نعیم قاسم نے کی۔ جسٹس (ر) چودھری اعجاز احمد نے ایک معرکتہ الآرا کتاب باد نسیم شائع کی ہے۔ اس کتاب کے لئے نسیم صاحب نے کہا کہ یہ میری زندگی میں شائع نہیں ہونا چاہئے تھی۔ اس کی تقریب پذیرائی ہوئی تو میں شرکت نہیں کروں گا۔ کتابوں کی تقریب پذیرائی کا ایک کلچر ہے مگر یہ تقریب عجیب تھی۔ اسے مختلف کہنے سے بھی وضاحت نہیں ہوتی۔ یہاں کوئی صدر محفل نہ تھا۔ قرآن پڑھا گیا۔ دعائیں اور نسیم صاحب کی باتیں ہوئی۔ گپ شپ میں وارداتیں بیان ہوئیں جو نسیم انور بیگ کی محفل میں کسی نے اپنی نگاہوں سے دیکھی اور اپنے کانوں سے سنی تھیں۔ نسیم انور بیگ بولتے تھے تو دلوں کے دروازے کھولتے تھے۔ شام کے وقت بھی باد نسیم ماحول میں اڑنے لگتی تھی۔ جسٹس اعجاز نے خود 500اپنی کتابیں خرید کر تقسیم کیں۔ ہر طرف باد نسیم کے جھونکے وجد کرنے لگے تھے۔ جسٹس اعجاز کا خیال ہے کہ نسیم انور بیگ ایک ایسے وژنری آدمی تھے جن کے رابطے غیب کی دنیا سے تھے۔ ان کی صحبت میں جانے والے ہر شخص کے پاس ایک نہ ایک بات ایسی ہے کہ جو نسیم صاحب نے کہی اور وہ آئندہ دنوں میں سچ ثابت ہوئی۔ جسٹس صاحب کی اس بات کی گواہی میرے دل میں بھی مچلتی ہے۔ تڑپ اور طلب یکجان ہو جاتی ہیں۔ کئی باتیں زخمی پرندوں کی طرح میرے دل کی جھیل پر پیاس بجھانے آ جاتی ہیں۔ ایک عجیب رنگ کی نسبت مجھے بلکہ ہمیں نسیم انور بیگ کے ساتھ ہے۔ نسبت نسب سے بڑی ہوتی ہے۔
میں کم کم اسلام آباد جاتا ہوں مگر جب گیا تو نسیم صاحب کے پاس ضرور حاضر ہوا۔ اب بھی یہ حاضری ہوتی ہے جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہیں میری ملاقات نعیم قاسم سے ہوئی تھی۔ عظیم ایڈیٹر مجاہد صحافت مجید نظامی سے وہاں بھی ملاقات ہوتی تھی۔ نسیم صاحب کے گھر پر مجید صاحب نے نوائے وقت میں لکھنے کی ہدایت کی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اشارہ بھی نسیم صاحب کا ہو گا۔ محبتوں کی سانجھ کیا کیا رنگ دکھاتی ہے۔ جسٹس اعجاز چودھری صاحب کی باد نسیم میں سب سے زیادہ کالم میرے شامل ہیں جو میں نے نوائے وقت میں لکھے۔ یہ کالم سے بڑھ کر وہ کیفیتیں ہیں جو میرے دل میں نسیم صاحب سے ملنے کے بعد بے قراریوں اور سرشاریوں میں ڈھلتی تھیں۔ کالموں کے کچھ عنوان حاضر خدمت ہیں۔ انکسار کی جنت میں رہنے والا شخص، چشمہ ٹھنڈے پانی کا، آزاد پاکستان کا تھنک ٹینک، دل کے صحرا میں ریت اور راز، وہ کئی زندگیاں گزار رہا ہے۔ نسیم انور بیگ سے ایک بار ضرور ملو۔ اب بھی ان سے ملا جا سکتا ہے۔
ایک محفل میں کسی شخص نے کہا کہ پاکستان کے حالات ٹھیک نہ ہوئے تو مستقبل روشن نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ البتہ تمہارے حالات یہ بتاتے ہیں کہ تمہارا مستقبل روشن نہیں ہے۔ اس شخص کا حال واقعی بہت برا ہوا۔ باد نسیم میں تنویر اعوان کی ایک تحریر ’’پاکستان کا مستقبل روشن ہے‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ نسیم صاحب نے کہا کہ جب تک رہبر ملت مجید نظامی زندہ ہیں ہمارے ایمان پر حملہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ نظامی صاحب مدینہ شریف کے آدمی ہیں۔ نوائے وقت جیسے اخبار کی موجودگی میں ہمارے مستقبل پر ڈاکہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اعوان صاحب لکھتے ہیں ’’موجودہ حالات میں یہ پیشن گوئی عجیب و غریب لگتی ہے مگر یہ نسیم صاحب کے وجدان کی معراج ہے اور امید کا ایک مضبوط سہارا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی مسلمان لوگ اپنے حکمرانوں سے متنفر ہیں جو عالمی قوت امریکہ کے غلام ہیں اور اس کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘ باد نسیم قلندرانہ اسلوب میں مرتب کی گئی کتاب ہے۔ جسٹس صاحب نے کتاب کے آغاز میں اپنے دوستوں کے علاوہ اپنے گھر والوں اپنی اہلیہ اور بالخصوص اپنی بیٹیوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ منور سلطانہ نوشین اعجاز سبین اعجاز اور مہرین اعجاز کے ساتھ اپنے بیٹے انسب اعجاز کا ذکر بھی ہو گیا ہے۔ یہ بات سیرت محمدؐ سے عشق کرنے والا شخص کر سکتا ہے۔
نسیم انور بیگ کی برسی کی تقریب کے صدر جنرل حمید گل نے بتایا کہ نسیم صاحب نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ اب نیٹو فورسز افغانستان میں آ جائیں گی۔ معروف کالم نگار برادرم بیگ راج نے لکھا ہے کہ جنرل حمید گل کو امریکہ کا ویزا نہیں مل سکتا۔ چین اعتراض نہ کرتا تو امریکہ اقوام متحدہ کے ذریعے اس نڈر نظریاتی جرنیل  کو دہشت گرد قرار دے چکا ہوتا۔ پیمرا کے پہلے چیئرمین میاں جاوید نے نسیم صاحب کے لئے خوبصورت گفتگو کی دوسرے کالم نگاورں کے علاوہ سب سے زیادہ میرے کالموں کے اقتباسات سنائے جو نوائے وقت میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہاں ممتاز صحافی محمد اسلم اور جنرل شاہد عزیز نے بھی گفتگو کی۔ برادرم نعیم قاسم کی تجویز کو بہت سراہا گیا کہ نسیم انور بیگ میموریل سوسائٹی بنائی جائے۔
جیسے وہ پاکستان کے لئے بے تاب رہتے تھے یہی بے تابی اس قریہ عشق محمدؐ کو تب و تاب جاودانہ عطا کر سکتی ہے۔ وہ عشق رسولؐ کے تروتازہ پھول تھے۔ خاک پائے رسولؐ ان کا تکیہ کلام تھا۔ یہ خاک میرے شہروں میں کب اڑے گی۔ جب پھر باد نسیم چلے گی۔ علامہ اقبال نے اپنے لئے یا نجانے کس کے لئے یہ اشعار لکھے تھے۔ مجھے اس موقع پر بہت زور سے یاد آ رہے ہیں۔
نسیمے از حجاز آید کہ نآید
سرود رفتہ باز آید کہ نآید
سرامد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نآید

ای پیپر-دی نیشن