اربوں روپے کی اسمبلی کھربوں روپے کے ممبران
سندھ اسمبلی کی نئی عمارت 4ارب روپے میں مکمل ہو گئی ہے اور غریب کے پاس چار روپے بھی نہیں ہیں۔ پرانی عمارت بھی اتنی پرانی نہ تھی۔ گزارا ہو رہا تھا مگر گزارا کرنے کے لئے تو عام اور غریب لوگ ہوتے ہیں۔ ہوتے ہیں مگر نہیں ہوتے۔ ہونے نہ ہونے میں رہتے ہیں۔ رہتے ہیں نہ رہنے کی طرح۔ پرانی عمارت کے لئے شرجیل میمن اور ممبران نے میوزیم یا عجائب گھر بنانے کی تجویز دی ہے۔ پہلے بھی یہ میوزیم تھا کہ وہاں ممبران اسمبلی بیٹھتے ہیں۔ یہ میوزیم میں رکھنے والی چیزیں ہیں۔ ہمیشہ اسمبلیوں میں پرانے لوگ زیادہ ہوتے ہیں جو پرانے نہیں ہیں ان کے دل بڑے پرانے ہیں ذہنیت پرانی۔ آدھی ادھورانی۔ عام اور غریب لوگوں کی دشمنی ان کے خمیر ضمیر میں ہوتی ہے اور ان کا خمیر ضمیر جو کچھ ہے وہ سب جانتے ہیں۔ شرجیل میمن وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ میں شرجیل بھی یہی کچھ ہیں۔ میوزیم کی بجائے یہ میموریل بنایا جائے تو بہت مناسب ہو گا۔ یہ ظالموں اور جاہلوں کی یادگاریں ہیں۔ جعلی ڈگریوں والے۔ جن کی ڈگری جعلی نہیں ہوتی وہ ویسے ہی جعلی ہوتے ہیں۔ کرپٹ نااہل اور ظالم۔
ایک ٹی وی چینل پر تحریک انصاف کی خوبصورت سرگرم اور بولنے والی ناز بلوچ نے شرجیل میمن کی بولتی بند کر دی۔ پھر بھی 4ارب کی نئی اسمبلی عمارت کا دفاع کرتا رہا اور تحریک انصاف اور اپوزیشن کے ممبران کی طرف سے مبارکبادوں کے شور و غل کا ذکر کرتا رہا۔ ناز صاحبہ اپنے ممبران سے پوچھیں کہ انہوں نے مبارکبادیں کیوں دیں۔ وہ اس نئی عمارت میں بیٹھنا چھوڑ دیں تو بات بنے۔ مگر عمران خان اور تحریک انصاف والے بھی صرف باتیں کرتے ہیں اور حکومت میں جانا چاہتے ہیں تاکہ ایسے ہی ’’کام‘‘ کر سکیں۔ ممبران شور و غل ہی مچاتے ہیں۔ ہماری اسمبلیوں کے لئے مچھلی منڈی کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں صرف لڑائیاں، نعرے، اپنے پارٹی لیڈر کی ناجائز حمایت۔ ہمارے ہاں لیڈر نہیں ہوتے صرف پارٹی لیڈر ہوتے ہیں۔ باقی سب ورکر ہیں۔ جنہیں رہنما کہا جاتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پرویز رشید کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ ہمارے لوگ گناہ صغیرہ تو کرتے ہی نہیں ہیں۔ اب وہ وزیر شذیر بنا ہے تو اس لفظ کے استعمال سے جان چھوٹ گئی ہے۔ کسی وزیر کو وزیر کے معانی تک نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف عہدہ ہے۔ اس کا اتنا فائدہ ہوا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے ’’رہنما‘‘ کے لفظ کا استحصال نہیں ہوتا۔ ویسے استعمال اور استحصال کو ہم ایک جیسا اپناتے ہیں۔
اس نئی اسمبلی عمارت کی کیا ضرورت تھی۔ ہماری حکومتیں صرف غیرضروری غیرسیاسی غیراخلاقی اور غیرآئینی کام کرتی ہیں اور اس کا بھی کریڈٹ لیتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں عام غریب لوگوں کے لئے کوئی نئی عمارت نہیں بنائی گئی۔ کوئی ہسپتال کوئی سکول کالج، یونیورسٹی یا عام پارک، سیرگاہ وغیرہ عام لوگوں کے لئے کوئی عمارت نہیں بنائی گئی۔ بسوں ویگنوں کے انتظار میں کھڑے لوگوں کے لئے معمولی جگہیں نہیں ہوتیں۔ سندھ حکومت نے ساحل سمندر پر کوئی جگہ نہیں بنائی کہ وہاں عام لوگ بھی جاتے ہیں۔ ائر پورٹ پر وی آئی پی اور وی وی آئی پی لائونج بھی ہوتے ہیں۔ ساحل سمندر پر امیر کبیر بے ضمیر لوگوں کے لئے کوئی اربوں روپے کی عمارت بنائی جاتی۔ اسے عام لوگ دیکھ تو سکتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر عام لوگوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔
چھوٹے چھوٹے منصوبے غریبوں کے لئے برسوں سے زیرتکمیل ہیں۔ پچھلے دنوں سندھ میں نئی بیش بہا عمارت کے سائے میں تھر کے علاقے میں ایک قحط آیا تھا۔ بچے اور عورتیں بوڑھے بھوک، پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے رہے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ سیکرٹری فوڈ کا فرمان سنیں کہ ہمارے پاس اتنے فنڈ نہیں کہ ہم ضروری خوراک تھر کے علاقے تک پہنچا سکیں۔ اس لئے میں بیورو کریسی کو برا کریسی کہتا ہوں۔ یہ صرف برا کرنے کے ماہر ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ وزیرتعلیم نثار کھوڑو اور وزیر شذیر شرجیل انعام میمن اور دوسرے ممبران عالیشان نئے صوفوں پر نیم دراز ہو کے شہر کے لوگوں کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ 99 فیصد سے زیادہ ممبران اسمبلی تھر کے علاقے میں گئے بھی نہیں ہوں گے۔ وہ لوگ گرمی کے عذاب میں بھی تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ گرمی سردی سے زیادہ تکلیف دہ اور عام لوگوں کے لئے بھیانک ہوتی ہے۔ سردی سے آدمی گرم جگہ پر آئے تو اسے لذت محسوس ہوتی ہے۔ گرمی سے سرد مقام پر آئے تو سکون ہوتا ہے۔ ہمارے وڈیروں کو سکون نہیں لذت چاہئے۔ مگر انہیں دونوں چیزیں ’’میسر‘‘ ہیں۔ اب سکون کا نام تبدیل کر کے کچھ اور رکھنا چاہتے ہیں۔ مثلاً خشکی زیادہ موزوں ہے۔ ایک تو یہ مونث ہے اور مزیدار بھی ہے۔ ممبران 4ارب کی نئی سندھ اسمبلی عمارت میں گرمی پیدا کرنے کے لئے بحث مباحثہ لڑائی بھڑائی اور گرما گرمی کر لیتے ہیں۔ اب ہر اسمبلی میں خوبصورت عورتوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو چٹیں لکھ کر وقت کو آرام دہ اور مزیدار بنا لیتے ہیں۔ کام جو نہیں ہے کچھ تو کرنا ہے۔ جہاں رٹ نہیں چلتی وہاں چٹ چل جاتی ہے۔ ایک تصویر میں ایم پی اے بہت زوردار رہنما شرمیلا فاروقی اور دوسری خواتین ممبران خوب گپیاں کر رہی ہیں۔ شرمیلا فاروقی کا نام شائع ہوا ہے باقی خواتین کا نام میڈیا والوں کو آتا نہ ہو گا۔ شرمیلا تو مرد ممبران کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔
ممبران سیاستدان اور حکمران کروڑوں اربوں کے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کے کئی شہروں میں گھر ہیں۔ ایک شہر میں کئی گھر ہوتے ہیں۔ صرف رائے ونڈ لاہور میں ایک ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے۔ غریب ملک کے امیر وزیراعظم کا گھر‘ کوئی غریب آدمی ممبر اسمبلی نہیں بن سکتا۔ سوچنا ہے کہ کیا نیا رائے ونڈ بھی بن رہا ہے۔ کئی تیتر، مور اور ’’مور اوور‘‘ چیزیں پرندے اور پالتو درندے یہاں موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں وائٹ ہائوس واشنگٹن صرف تین ایکڑ پر ہے۔ جہاں دفاتر بھی ہیں۔ لندن میں وزیراعظم ہائوس صرف دس مرلے میں ہے۔ 10 ڈائوننگ سٹریٹ چند کمروں کا فلیٹ جس کا صدر دروازہ فٹ پاتھ پر کھلتا ہے۔ اس سے تو میرا دس مرلے کا کوارٹر بہتر ہے۔ پاکستان کا ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس دیکھیں جس کی صرف تزئین و آرائس پر کرڑووں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ تو بڑی مدت سے وہی ہے۔ بلکہ وہی کی وہی ہے۔ قدیم عمارتوں کی اپنی روائت، تاریخ اور گریس ہوتی ہے۔ مگر ہمیں صرف شان و شوکت پروٹوکول، سکیورٹی اور شو شا چاہئے۔ پہلے سے موجود عمارتوں کو نئی جگہ منتقل کرنے اور اربوں کے اشتہارات سے بہتر تھا کہ غریبوں کے لئے کچھ بنایا جاتا۔ عام لوگوں سب لوگوں کو کچھ دیا جاتا۔ دوسرے ملکوں میں حکمران واقعی جمہوریت پسند ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں شہنشاہیت ہوتی ہے۔ ہم نے حکومت کو جمہوریت کا نام دے دیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے اور غربت کیا ہوتی ہے۔ امارت غربت ازل سے ہے مگر امیر اور غریب میں اتنا فرق کیوں ہے؟ نمائش کیوں ہے؟ امیر نمائش کرتے ہیں۔ غریب کی نمائش ہوتی ہے۔ میں یہ بات بار بار لکھ چکا ہوں کہ سیاستدانو، حکمرانو میری التجا مان جائو۔ غریبی ختم کرنے کے دعوے اور وعدے چھوڑو صرف تھوڑی سی امیری ختم کر دو۔ غریبی خود بخود ختم ہو جائے گی۔