• news

وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف ایک اور ایف آئی آر

مولانا طاہر القادری تو سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی ایف آئی آر خادم پنجاب شہباز شریف کے خلاف درج کروانا چاہتے ہیں لیکن میں بھی ایک بے ضرر سی ایف آئی آر جناب شہباز شریف کیخلاف رجسٹر کروانا چاہتا ہوں۔ میں ایک باکمال شاعر کے ”قتل“ کا مقدمہ وزیر اعلیٰ پنجاب کیخلاف درج کروانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میرے ایک پسندیدہ شاعر کو سرکاری دفتروں کے کربلا میں تقریباً پچھلے 15 سالہ سے قتل کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ تک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھی میرے اس دوست شاعر کو قتل کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن اس شاعر کے اصل ”قاتل“ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہیں۔ میاں شہباز شریف کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ جس شخص کو انتہا کا پیار کرتے ہیں اُسے مار دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی قسمت میں خود بھی آرام، سکون اور چین نہیں ہے، وہ اپنے ساتھ ڈیوٹی دینے والے افسروں کے آرام و سکون کو بھی برباد کر دیتے ہیں۔ جس شاعر کی مَیں بات کر رہا ہوں وہ اپنی سرکاری ملازمت کی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو چکے تھے مگر خادمِ پنجاب اپنے پسندیدہ افسروں کو کب ریٹائر ہونے دیتے ہیں۔ جو شخص اپنے ضمیر کا قیدی ہوتا ہے وہ وقت سے پہلے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو حکومتی قفس میں رہنے کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان پر آزادی کا دروازہ کھلنے کا وقت آ جائے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ شاید سلیم کوثر کا شعر ہے ....
عجب لوگ ہیں آزادیوں کے مارے ہوئے
قفس میں پوچھتے پھرتے ہیں گھر کہاں تک ہے
ہمارے دوست کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو اپنے درج ذیل اشعار بھی بڑے جوش و جذبہ سے سُناتے رہتے ہیں کہ ....
ڈوبتی شام کی پھٹکار ہو مجھ پر مَیں اگر
چڑھتے سورج سے کبھی ہاتھ ملانا چاہوں
مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ وہ سرائے ہمایوں یعنی شاہی محل سے نکلنے کو تیار بھی نہیں۔ جب تک آنکھوں میں دم ہے، سانسیں چل رہی ہیں چڑھتے سورج سے ہاتھ کون چُھڑانا چاہتا ہے۔ لیکن ہمارا وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف مقدمہ یہ ہے کہ اچھے خاصے اور ایک معقول شاعر کو انہوں نے دنیا داری اور اپنی سیاست کے دھندوں میں پھنسا دیا ہے۔ شہبا ز شریف جیسے وزیر اعلیٰ کیلئے تعلقات عامہ کی ذمہ داریاں قبول کرنے والا کوئی بھی افسر اپنے معمول کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ جس شخص کی 24 گھنٹے یہی ذمہ داری اور سردردی ہو گی کہ وزیر اعلیٰ کی کون سی خبر صحیح طرح سے چپھی ہے یا نہیں، وزیر اعلیٰ نے کہاں کیا تقریر کرنی ہے اور کس اشتہار کا مضمون کیسے زیادہ مو¿ثر ہو سکتا ہے۔ پھر یہ جائزہ بھی لیتے رہنا کہ زیادہ تشہیر ہو جانے سے کہیں خادمِ پنجاب کی سیاست پر منفی اثرات تو مرتب نہیں ہوں گے اور اس بات کی پریشانی بھی کہ وزیر اعلیٰ اپنی تشہیر کے کم رہ جانے سے کہیں ناراض نہ ہو جائے۔ ان ساری غیر تخلیقی اور غیر ادبی سرگرمیوں اور بعض ایسے کام جو ضمیر پر بوجھ بھی بن سکتے ہوں۔ اس طرح کے دھندوں میں بری طرح الجھا ہوا ایک شخص شعر و سخن کی طرف دھیان کیسے دے سکتا ہے۔ شاعری کے اپنے موسم، اپنے رنگ اور اپنا ماحول ہوتا ہے۔ شاعری دلبروں کی گلیوں میں اور دل لگی کے کاموں سے نکھرتی ہے۔ سرکاری اشتہارات اور خادم اعلیٰ کی خبریں اور تقریریں لکھنے والے ہاتھوں سے شاعری منہ موڑ لیتی ہے۔ جس شاعر کو حکمران اپنے کاموں اور اپنی سیاسی اغراض کیلئے اپنے قید خانہ میں بند کر لیتے ہیں۔ شاعری کی دیوی اس سے روٹھ جاتی ہے۔
جب شاعری اپنے شاعر کو دن رات سرکاری خبروں، اشتہارات اور وزیر اعلیٰ کیلئے تشہیری مہم کے مختلف منصوبوں میں الجھے ہوئے دیکھتی ہے تو شاعری بھی اپنے شاعر سے دوری اختیار کر لیتی ہے۔ ایسا عالم کسی بھی شاعر کیلئے موت سے کم کربناک نہیں ہوتا۔ شاعری ناراض ہو جائے تو شاعر اپنا مرثیہ خود لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ....
یہ تیرے دوست تجھے دفن کیوں نہیں کرتے
شعیب فوت ہوئے تجھ کو ایک زمانہ ہوا
بعض لوگ دستِ اجل کے بغیر بھی مر جاتے ہیں۔ ان کی موت کیلئے دستِ حکمران ہی کافی ہوتا ہے۔ کالم کے آغاز میں میں نے لکھا تھا کہ میں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کیخلاف ایک ایف آئی آر درج کروانے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ میرے دوست شاعر کو خود بھی قتل ہونے کا بہت شوق ہے۔ اگرچہ شہباز شریف ایک ”مشہور زمانہ قاتل“ ہیں اور انہیں قتل کے فن میں مہارت بھی بہت ہے مگر جب میں محسوس کرتا ہوں کہ میرا دوست بھی حکومت کے مقتل میں جانے کے لئے ہر وقت بیتاب رہتا ہے اور اسے بھی قتل ہوئے بغیر سکون میسر نہیں آتا تو پھر میں اس کے قتل کی ایف آئی آر درج کروانے کے ارادے کو ترک کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔

ای پیپر-دی نیشن