کشمیری شال ،کشمیر سنگھ اورغیرت
کشمیری شال کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ اس کی قیمت کا تعین معیار، خوبصورتی اور بنانے کے طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اس کی شاطوس اور پشمینہ زیادہ مشہور اقسام ہیں۔ کشمیری شال کیلئے اون مقبوضہ کشمیر کے برف پوش بالائی پہاڑی علاقوں میں پائی جانے والی تبتی اور منگولیا نسل کی بھیڑوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ شروع میں یہ اون حاصل کرنے کا طریقہ بھی بڑا انوکھا تھا۔ بھیڑیں جھاڑیوں کے درمیان سے گزرتیں تو جو روئیں جھاڑیوں میں پھنس جاتے ان کو اتار کر چرخے سے کات لیا جاتا تھا۔ کاتی ہوئی اون کو کئی رنگوں میں رنگ کر گھروں میںکھڈیوں پر شال تیار کی جاتی تھی۔اس شعبہ میں زیادہ تر خواتین ماہر تھیں۔ مانگ میں اضافے کے باعث بھیڑوں کی اون اتار کر شالیں تیار ہونے لگیں اور بُننے اور بنانے کے طریقوں میں بھی تبدیلی آ گئی۔ اب شالیں مشینوں پر بھی تیار ہوتی ہیں تاہم ہاتھ سے بُنی ہوئی شال کو مالدار خریدار فوقیت دیتے ہیں۔ بھیڑ کے گلے کی اون سے تیار کی گئی دستی شال اعلیٰ معیار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس کی قیمت اڑھائی سے تین لاکھ روپے ہے۔ مارکیٹ میں کشمیری شال کے نام پر دس ہزار میں بھی شال دستیاب ہے۔ اس ہلکے اورملائم ہونے کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ 9 بائی 4 فُٹ کی پشمینہ شال ایک اوسط سائز کی انگوٹھی سے گزاری جا سکتی ہے۔ بلیزر کوٹ کی طرح جسم کے جس حصے پر شال اوڑھی ہو یخ بستہ موسم میں بھی سردی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ شوقین خواتین اور حضرات میں یکساں مقبول ہے۔اوڑھنے سے زیادہ اس کو کندھے پر تہہ کرکے لٹکانے کا رواج ہے ۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف کی والدہ کیلئے پشمینہ شال ہی کا تحفہ دیا تھا۔ایسے تحفوں میں عموماً کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے۔
کشمیری شالوں کا ذکر چلا تو کشمیر سنگھ یاد آیا اور ساتھ ہی پنڈی سے میجر (ر) نذیر فاروق کا فون آ گیا ہے۔ انہوں نے اپنی گرجدار آواز میں اسلامُ علیکم کہا۔ لب و لہجہ ماشا¿اللہ ایسا ہے کہ مزاج بھی پوچھیں لگتا ہے کہ گریبان پر ہاتھ ڈال کر کوئی سچ اگلوارہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ ”کیا آپ کو معلوم ہے کہ کشمیر سنگھ وطن کے غداروں کو غداری کا کیا معاوضہ دیتا تھا۔ میجر صاحب کی زبان سے کشمیر سنگھ کا نام سُنا تو ان کا بتایا ہُوا واقعہ ایک فلم کی مانند ایک لمحے میں نظروں کے سامنے گھوم گیا ”رات گئے خفیہ والے بادامی باغ میں کشمیر سنگھ کے پیچھے لگے تو وہ چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔ جس گھر میں گھسنے کا شبہ تھا انٹیلی جنس والے اس گھر میں بڑے مہذبانہ طریقے سے داخل ہوئے۔ گھر کا کونا کونا چھان مارا، اس دوران کچھ لوگ جاگ گئے کچھ سوئے رہے۔ تلاشی لینے والے بے مُراد لوٹے تو کشمیر سنگھ اسی گھر سے نکل کر چلتا بنا۔ یہ گھر میں داخل ہُوا تو اسے گھر والوں نے ایک خاتون کے ساتھ بستر میں لٹا دیا تھا۔ تلاشی لینے والوں نے سمجھا کہ میاں بیوی سوئے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ کشمیر سنگھ نے اس واقعہ کے کئی سال بعد گرفتاری پر تفتیش دوران بتایا تھا۔تفتیش کاروں میں میجر نذیر فاروق بھی شامل تھے۔“ میں نے میجر نذیر کے سوال پر کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کشمیر سنگھ اپنے خدمت گزراوں کی کیاخدمت کرتا تھا۔میجر صاحب نے میری لاعلمی پر ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا کہ وہ پناہ دینے والوں کو کشمیری شالیں لا کے دیا کرتا تھا۔یہ لوگ دکاندار ذہنیت کے لوگ تھے جن کو عزت ، وقار اور حب الوطنی سے زیادہ دھن اور دولت سے محبت ہوتی ہے۔ دکانداری کاروبار کا نہیں، ایک ذہنیت کا نام ہے۔ ضروری نہیںکہ جس نے دکان بنا لی اس کی ذہنیت بھی دکاندارانہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس کا دکان کے ساتھ تعلق واسطہ تک نہ ہو مگر دکاندارانہ ذہنیت رکھتا ہو۔کئی نصف اور پون صدی تک دکان چلانے پر بھی ”مثالی اور نسلی“ دکاندار ثابت نہیں ہوتے ۔ شہر کے بڑے بازار میں سیٹھ کی پچاس کروڑ کی دکان ہے، دکان کے باہر اس کا بیٹا بھٹے بھون کر بیچ رہا ہوتا ہے ۔بڑے سیٹھ کا مقصد چھوٹے سیٹھ کو دکانداری کے آداب سکھانا اور پیسے کی قدر و اہمیت باور کرانا ہوتا ہے۔ دو تین سال کے کورس سے وہ ذہنی طور پرمکمل دکاندار بن جاتا ہے۔ ایسی ہی ذہینت کا مالک ایک بہت بڑا کارخانے دار بادل نخواستہ مہمان کیلئے چائے کا کپ بنواتایا منگواتا ہے جبکہ گھر میں ایسے مہمان کی انواع و اقسام کے لوازمات سے تواضع کرتا ہے۔فیکٹری میں کروڑوں کے کاروبار کے دوران وہ چائے کے کپ کو خسارے میں شمار کرتا ہے۔
ایسے اوصاف سے متصف شخص سے کسی نے لگائی بجھائی کی کہ اس کی بیگم کا کردار ٹھیک نہیں، اس کی فلاں شخص کے ساتھ بے تکلفی ہے۔ اس کی غیرت نے جوش مارا، گَلّے سے پستول نکالا، اس کی گولیاں چیک کیں اور دشمن کی تلاش میں چل نکلا۔ وہ جس کا حشر نشر کرنے نکلا تھااسے بھی کسی نے خبر کردی ۔ تھوڑی دیر بعد پستول بردار کے سامنے اس کا ٹارگٹ موجود تھا ۔جس نے اس کے کسی ایکشن حتیٰ کہ زبان ہلانے سے بھی قبل پستول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کتنا اچھا پستول ہے، امپورٹڈ لگتا ہے، یار کہاں سے لیا ہے مجھے بھی ایسا ایک دلوا دو بلکہ یہی پچاس ہزار میں دیدو۔ پچاس ہزار کا سُن کر آنکھوں سے نفرت کی سرخی زائل اور غصے سے کھولتے دماغ میں ٹھہراﺅ آگیا۔ پورے بدن میں سرور و سرود کی لہر اُتر گئی۔انگ انگ رقص کرنے لگا۔ایک ہاتھ سے پستول تھمایا دوسرے سے پچاس پکڑے۔ اپنے اڈے پر پہنچا تو جس نے قتل کے لیے اکسایا تھا اس نے حقیقت جاننا چاہی۔ ایک بار پھر پچاس ہزار کی گنتی کرتے ہوئے اسے بتایا کہ میںنے50 ہزار میں پستول اسے بیچ دیاجو پندرہ سو میں خریدا تھا۔مَیں منافع کا یہ بہترین موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔حکمران اورقوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے والے اداروں کے سربراہان دکاندار بھلے ہوں ،دکاندارانہ ذہنیت نہ رکھتے ہوں۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا