” ضربِ غضب “
شمالی وزیر ستان میں فوجی کاروائیاں جاری ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم ضرور کامیاب اور کامران ہو ں گے۔ آئی ایس پی آر کے ایک اعلان کے مطابق تقریباً 200 سے زیادہ تخریب کار ہلاک ہو چکے ہیں اور اب زمینی افواج علاقے کومکمل طور پر محفوظ بنائیں گی۔ آئیںاس آپریشن کے سلسلے میں چند اہم حقائق کا جائزہ لیتے ہیں
اول: جس وقت حکومت کی طرف سے شمالی وزیر ستان میں کاروائی کا اعلان کیا گیا۔ اُسی وقت سے وہاں کے باشندے جوق در جوق نقل مکانی کرنے لگے۔ جن میں ایک بہت بڑی تعداد بنوں میں آ گئی۔ ان لوگوں کے مطابق شر پسندوں نے بہت پہلے سے ہی مومند اور باجوڑ کی طرف رخ کر لیا تھا۔ ان افراد نے کہا ہے کہ اب وزیر ستان میں کوئی شرپسند موجود نہیں ہے
دوم: یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صرف شمالی وزیرستان ہی تخریب کاروں کا گڑھ اور مرکز ہے۔ لیکن یہ خیال حقیقت پرمبنی نہیں کیونکہ کہ ملک دشمن عناصر صرف شمالی وزیرستان تک محدود نہیں بلکہ وہ پورے علاقے میں پھیل چکے ہیں اور وہاں طاقت کے اندھا دھند استعمال اغوا برائے تاوان اور دہشت پھیلا کر ایک ایسا نظام تشکیل دیا ہے جس کے ذریعے اُن کو ہتھیار ، دھماکہ خیز مواد اور دوسری اشیاءاستعمال بشمول خوراک متواتر حاصل ہوتی رہتی ہے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں امن و امان افغانستان کے حالات سے مکمل طور پر جڑا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمنوں کو تحفظ مہیا کرتے ہیں اور شر پسند دونوں ممالک کے درمیان آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کرتے ہوئے اپنی مرضی کے حدف پر حملے کرنے میں مصروف ہیں۔ نیز ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں ۔ جن کے قائم ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ پچھلے آپر یشن کے دوران تمام تخریب کار مہاجرین کے بھیس میں ملک کے باقی حصوں میں پھیل گئے او ر وہاں پر اُن سے ہمدردی رکھنے والے افراد نے اُن کو وہاں اپنے اڈے قائم کرنے میں مدد فراہم کی۔
قارئین! اس پورے معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کیا شمالی وزیر ستان میں ہونے والی کاروائی حکومتِ پاکستان کی طرف سے عمل میں آئی ہے یا پھر صرف مسلح افواج کی طرف سے کی جار ہی ہے۔ کیونکہ اگریہ حکومت اور فوج کی مشترکہ کاروائی ہوئی تو اس اعلان وزارتِ دفاع کی طرف سے کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔نیز سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی ملک کے طول عرض میں پھیلے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کیخلاف کاروائی کس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ علاوہ ازیں شمالی علاقوں میں آپریشن کے نتیجے میں وہاں کے باشندوں کی نقل مکانی کے پیش نظر اُنکی رہائش ، خوراک اور طبی سہولیات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے کیا یہ بھی مسلح افواج کے فرائض میں شامل ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر حکومتِ کس مرض کی دوا ہے۔ بد قسمتی سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے میں مکمل طور پر نا کامیاب رہی ہیں کیونکہ شمالی علاقوں پر پی اے ایف کی طرف سے بم باری کا سلسلہ جنوری 14 سے جاری ہے اور مسلح افواج کی طرف سے کاروائی نا گزیر عمل تھا لیکن اسکے باوجود ہماری حکومت کی طرف سے ضروری اقدامات نہیں کئے گئے۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلح افواج کامیاب کاروائی کر کے شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ مگر تخریب کاری کے مکمل خاتمے میں کامیاب نہ ہو سکیں گی کیونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں IDP یعنی مہاجرین کی نگہداشت اور آبادکاری کے اہم فریضے کو ادا کرنے میں ناکام رہیں گی اور اس طرح دہشت گردی کے پیدا ہونے کی بنیادی وجوہات اسی طرح قائم و دائم رہیں گی۔ اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہم ملک کے کسی اور علاقے میں دہشت گردوں کیخلاف کاروائی کی خدا نخوستہ تیاری کر رہے ہو ں گے۔ سوچیں یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہ سکتا ہے اور کیا ہمارا ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟