چوہدری نثار علی خان کا ’’سیاسی مستقبل‘‘
گذشتہ چار دہائیوں سے چوہدری نثار علی خان ملکی سیاست میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں انہوں نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز بھی پاکستان مسلم لیگ سے کیا ہے اور پچھلے 30سال سے میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے میدان سیاست میں سرگرم عمل ہیں انکے پاس مسلم لیگ(ن) کا کوئی عہدہ نہیں ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے 80فیصد فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ وہ مسلم لیگ(ن) کا ’’سیاسی دماغ ‘‘ہیں تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی مجھے ذاتی طور اس بات کا علم ہے مختلف مواقع پر انہیں میاں نوازشریف کی جگہ ملک کا وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی گئی عسکری پس منظر رکھنے والے پاکستان کے واحد سیاست دان جو مسلسل8بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوئے ہیں نے ہمیشہ میاں نواز شریف کو ’’بائی پاس‘‘ کرکے وزارت عظمیٰ کی پیشکش کو ٹھکرا دی شاید یہی وجہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے بے حد قریب ہیں سیاست کاموسم سردہو یا گرم چوہدری نثار علی خان ،شریف خاندان کے سب سے قابل اعتماد ’’فرد‘‘ کی شہرت رکھتے ہیں مرحوم میاں شریف انہیں اپنا چوتھا بیٹا ہی تصور کرتے تھے لیکن سیاست ایک ایسا ظالمانہ کھیل ہے اقتدار کے حصول میں بھائی بھائی کا سر قلم کر دیتا ہے بیٹا باپ کو قید خانے میں ڈال دیتا ہے بھائی بھائی کی آنکھیں نکلوا دیتا ہے لیکن میں پچھلے تین عشروں سے دیکھ رہا ہوں میاں نواز شریف کے سیاسی سفر میں ساتھی بدلتے رہے مشکل وقت میں کئی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن چوہدری نثار علی خان گنتی کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے’’ سردگرم موسم ‘‘میں بھی شریف خاندان کا ساتھ نہیں چھوڑا چوہدری نثار علی خان کو ’’زکام ‘‘ بھی ہو جائے توبھی بڑی خبر بن جاتی ہے اور کسی سیاست دان کے دل کا بائی پاس بھی ہو کوئی نوٹس نہیں لیتا۔چوہدری نثار علی خان علالت کے باعث کچھ دنوں کیلئے پارلیمان میں نہیں آئے تو اپوزیشن بالخصوص پیپلز پارٹی کے کیمپ نے ان کے ’’ وزیر اعظم محمد نواز شریف سے اختلافات اور وزارت تبدیل‘‘ کرنے کی افواہ اڑا دی پھر طرفہ تماشا یہ کہ انکے حوالے سے یہ خبر اڑائی گئی کہ کراچی ائرپورٹ پر دہشت گردی کے واقعہ کی شب وزیر اعظم وفاقی وزیر داخلہ کو تلاش کرتے رہے دراصل چوہدری نثارعلی خان کیخلاف افوائیں ایف آئی اے کی پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے خلاف 5میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات کی وجہ سے اڑائی جا رہی ہیں ویسے بھی ان چوہدری صاحب کی پیپلز پارٹی سے نہیں بنتی وہ اسکے ’’ دل‘‘ میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیںجب کہ مسلم لیگ(ن) کی ’’ فاختائیں‘‘ پیپلز پارٹی سے قربت کو ہی اپنی ’’سیاسی معراج ‘‘ سمجھتی ہیں بہت کم لوگوں کواس بات کاعلم ہے چوہدری نثار علی خان پچھلے 30،35سال سے ’’کم فشار خون‘‘ کے عارضہ میںمبتلاء ہیں وہ 1994ء میںشدید علیل ہوئے توسیاسی مخالفین ان کی علالت کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی اللہ تعالی کے فضل وکرم وہ صحت یاب تو ہو گئے لیکن انکے مخالفین نے افواہ پھیلا دی کہ انہوں نے ’’ تحریک نجات‘‘ میں حصہ نہ لینے کیلئے علالت کا بہانہ تراشا ہے جب کہ وہ اس وقت اپنی زندگی میں شدید علیل ہوئے تھے انکی جان کے لالے پڑگئے تھے وہ جنرل(ر) مشرف کے دور اقتدار میں بھی نظر بندی کو دوران علیل ہوئے لیکن انہوں نے جنرل (ر) مشرف سے رہائی کی بھیک نہیں مانگی چوہدری شجاعت حسین نے انہیں سرکاری مسلم لیگ میں اہم عہدہ دینے کی پیشکش کی جنرل (ر) مشرف انہیں ملاقات کیلئے بلاتے رہے لیکن انہوں نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی اور نہ ہی جنرل (ر) مشرف سے ملاقات کی انہوں نے جنرل (ر) مشرف سے جس لب ولہجہ میںگفتگو کی یہ ان کی شخصیت کا ہی خاصا تھا وہ پارٹی کے بعض رہنمائوں کے طرز عمل پر نالاں تھے لیکن انہوں نے میاں نواز شریف کو چھوڑکر فوجی آمر کے ساتھ کھڑاہونے سے انکار کر دیا ممکن تھا وہ ’’ناراض‘‘ ہو کر گھر خاموش ہو کر بیٹھ جاتے لیکن میاں شہباز شریف نے ’’پل‘‘ کا کردار ادا کیا اور جدہ کے سرورمحل میں میاںنواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان صلح کرادی۔ (جاری)
اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنے ہی چیمبر میں گر گئے لیکن اللہ تعالی ٰ نے ایک بار پھر ان کو نئی زندگی دی وفاقی کابینہ کے رکن کی حیثیت سے وزیر اعظم محمد نواز شریف اورچوہدری نثار علی خان کے درمیان کئی بار ناراضگی ہوئی اور بات استعفا دینے تک جاپہنچی لیکن ہر بار چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف نے بات آگے بڑھنے نہیں دی چوہدری نثار علی خان کا اپوزیشن لیڈر کی حیثیت کردار پارلیمانی تاریخ کا اہم حصہ ہے لیکن وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بارے میں ’’جارحانہ کردار‘‘ ادا کرتے ہوئے اپنے لیڈر کی ہدایات کو بھی نظر انداز کر دیتے غلام اسحقٰ خان کی صدارت میں انہیں وزارت عظمیٰ طشتری میں پیش کی گئی لیکن انہوں نے اپنے لیڈر جگہ لینے سے انکار کر دیا پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لئے کئی قوتیں سرگرم عمل تھیں لیکن چوہدری نثار علی خان نے نئے’’انتظام‘‘ میں وزارت عظمیٰ کے منصب کو قبول نہیں کیا اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ان کے اس وقت بھی پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے فاصلے پیدا ہو گئے جب ایک ’’بڑی کاروباری شخصیت‘‘ کو جو سابق صدر آصف علی زرداری کے بڑے قریب ہے کو مری میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر سرکاری پروٹوکول میں لے جایا گیا اور ان کی میاں نواز شریف سے رات کے کھانے پر ملاقات کرائی گئی بعد ازاں میاں نواز شریف ،چوہدری نثار علی خان کو منانے کے لئے ان کے گھر پہنچ گئے دونوں کے درمیان ناراضگی معمول کی بات ہے لیکن ان کے سیاسی مخالفین بات کا بتنگڑبنانے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں اب کی بار پھر وزیر اعظم محمد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ’’ناراضگی‘‘ ہو ئی ہے لیکن یہ ایسی ناراضگی بھی نہیں کہ چوہدری نثار علی خان ’’کٹی‘‘ کرکے نواز شریف سے الگ ہو جائیں اور نہ ہی نواز شریف جب اس وقت ان کی حکومت سیاسی مخالفین کے شدید دبائو میں ہے چوہدری نثار علی خان کی علیحدگی کی متحمل ہو سکتی ہے البتہ اپوزیشن اس ناراضگی کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے تیار بیٹھی ہے ملک بھر سے میڈیا کے لوگ مجھ سے چوہدری نثار علی خان کے’’ سیاسی مستقبل ‘‘کے بارے میں استفسار کرتے رہتے ہیں اور چوہدری نثار علی خان کی ناراضگی کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں چونکہ چوہدری نثار علی خان تک بہت کم صحافیوں کی رسائی ہے اس لئے وہ ان کے بارے میں بے پر کی بھی اڑاتے رہتے ہیں مجھے اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ چوہدری نثار علی خان سے بڑا قریبی رابطہ رہتا ہے لہذا اہم قومی امور پر آگاہی رہتی ہے میں نے چوہدری نثار علی خان سے استفسار کیا کہ ’’آپ کے استعفا اور وزارت تبدیل کرنے کی افواہیں گرش کر رہی ہیں میں نے آپ کے مستعفی نہ ہونے پر شرط لگادی ہے تو انہوں نے کہا کہ’’ استعفا کی بات کرنے والوں سے تاریخ لے لوں اس کے بعد کی ضمانت نہیں دے سکتا میں خود بھرا میلہ چھوڑ دوں تو الگ بات ہے‘‘انہوں نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ’’ حکومت بنانے والوں میں شامل ہوں اتنا بھی کمزور وزیر نہیں کہ میری مرضی کے خلاف وزارت تبدیل کر دی جائے ‘‘ پچھلے کئی روز سے پاکستان کے طول وعرض سے صحافتی برادری اور سیاست دان چوہدری نثار علی خان کے سیاسی مسقبل کے بارے میں کھوج لگانے میں مصروف ہیں حتیٰ کہ حساس ادارے بھی چوہدری نثار علی خان کی ناراضگی کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیںمجھے ہر روز ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن میرا یہ موقف ہے ایک گھر میں دو بھائیوںکے درمیان اقتدار کی نہیں نکتہ نظر کی لڑائی ہے چوہدری نثار علی خان جو طالبان سے مذاکرات،جنرل (ر) مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے بارے میں اپنا ٹھوس موقف رکھتے ہیں چوہدری نثار علی خان جو 4رکنی ’’کچن کیبنٹ ‘‘کے رکن ہیں وزیراعظم محمد نواز شریف اب اس میں فیصلے کرنے کی بجائے بڑے پیمانے پر مشاورت کرتے ہیں جہاں بعض اوقات چوہدری نثار علی خان کے نکتہء نظر کو پذیرائی نہیں ملتی ماضی میں 80فیصد فیصلے چوہدری نثار علی خان کی مرضی سے ہوتے رہے ہیں چوہدری نثار علی خان ایسی صورت حال کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں جس میں ان کی عزت وتوقیر میں ذرا بھر بھی کمی آئے لہذا’’ ناراضگی کے افسانے ‘‘میں اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں یہ گھر کی لڑائی ہے جو گھر کے اندر ہی ختم ہو جائے گی چوہدری نثار علی خان کا ’’مستقبل ‘‘ مسلم لیگ ’ن) سے ہی وابستہ ہے اور رہے گا۔