اپنی پالیسوں اور عوام پر بھروسہ کرنا سیکھیں
وقتِ جلاوطنی میں میاں صاحب نے مرحومہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی، چونکہ مشورہ دینے والے موجود نہیں تھے، جدہ میں رہنے والے جہاں دیدہ تھے، پاکستان سے بھی میاں صاحب نے مشورہ کیا ہوگا، حالانکہ کچھ دانشوروں اور میاں صاحب کیلئے نیک خواہشات رکھنے والوں نے انہیں بتایا تھا کہ جب بھی پی پی پی کو پرویز مشرف سے بات کرنی ہوتی ہے تو وہ پہلے میاں نواز شریف سے دوستی کا اظہار کرتی ہے تاکہ اس بلیک میلنگ یا تاثر کی وجہ سے پرویز مشرف سے ”آسان شرائط “ پر بات ہو سکے۔ مجھے یاد ہے جب بے نظیر جدہ میں میاں صاحب سے ملاقات کر کے گئیں میاں صاحب نے نہایت والہانہ استقبال کیا (ایک صحیح اطلاع کے مطابق میاں شہباز شریف کی طرف سے وہ والہانہ پن نہ تھا) تو ایک کھانے پر جہاں میں بھی موجود تھا اس بات پر ہوئی، میاں صاحب دوستوں سے اس کھانے پر کہا کہ میری بے نظیر سے بات ہوئی ہے، ہم سیاسی لوگوںکو جمہوریت کو اولیت دینا چاہئے آپس کے جھگڑوں کے ذریعے غیر جمہوری دوسرے معنوں میں ’فوج‘ کو اقتدار کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ اسکے بعد انہوں نے دوستوں سے رائے طلب کی کہ ملاقات کے بارے میںکیا خیال ہے یا اسکے اثرات، انہیں بتایا گیا (مجھ سمیت) کہ پی پی پی سے ہوشیار ہی رہیں جتنا سادہ لوح آپ ہیں وہ نہیں۔ آپ نے جمہوریت کے افزائش کیلئے ملاقا ت کی ہے جبکہ پی پی پی نے سوچ سمجھ کر کسی اور وجہ سے اور خاص طور پر پرویز مشرف کیساتھ اپنے معاملات آسان بنانے کیلئے اس ملاقات کے ذریعے پرویز مشرف کو پیغام دیا ہے، اس رائے پر میاں صاحب نے سخت اعتراض کیا کہ میں نے محترمہ کو بات چیت میں بہت سنجیدہ اور سچ محسوس کیا ہے انہوں نے میری بات کی تائید کی ہے۔ دوستوںنے صرف اس پر اکتفا کیا کہ ”میاں صاحب جیسا آپ محسوس کرتے ہیں اللہ کرے ایسا ہی ہو‘ چند دن بعد ٹی وی پرbreaking news آئی کہ ”محترمہ اور صدر پرویز مشرف کی دوبئی میں ملاقات شروع ہو چکی ہے“ میں نے میاں صاحب کو جو اس وقت جدہ سے لندن جا چکے تھے فون کیا کہ میاں صاحب خبریں تو دیکھ رہے ہونگے، میں نے گزارش کی میاںصاحب محترمہ کی جدہ آمد اور آپ سے ملاقات کی وجہ تو آپکو اب سمجھ آچکی ہوگی؟ میاں صاحب کا جواب اسلئے لکھنا مناسب نہیں چونکہ میاں صاحب ایک مرتبہ پھر مخلصی کے ساتھ پی پی پی کے ساتھ افہام تفہیم کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ میاںصاحب نے عہدہ وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد تمام تر مخالفتوں کے باوجود عمران خان کو فون کیا، ملاقات کی خواہش کی۔ عمران نے فرمایا کہ میں نہیں آو¿ں گا آپ میرے پاس آئیں ، میاں صاحب نہایت مخلصی سے عمرا ن خان کے گھر چائے پینے چلے گئے حالانکہ میاں صاحب وزیراعظم ہیں۔ جدہ سے جانے کے بعد انہوں نے ہمیشہ پی پی پی سے افہام تفہیم اور جمہوریت کی خاطر دوستی کیلئے ہاتھ بڑھائے رکھا عوام کی سوچ میاں صاحب کو وزیر اعظم دیکھنے کی بن چکی تھی اسلئے میاں صاحب کی پی پی پی سے دوستی کی خواہش کو عوام پسند نہیں کرتے تھے مگر میاں صاحب اسکی وجوہات بیان کرتے رہے اور لوگ میاں صاحب کی محبت میں میاں صاحب کی رائے سے ہم آہنگی پیدا کرتے رہے۔ مگر اب۔۔ میاں صاحب کی کنٹینر بابا یا کینیڈا سے آئے ہوئے بابا سے بھی افہام تفہیم کی پالیسی نہ ہی سمجھ میں آتی ہے نہ اسے انکے کارکنان اور عوام اچھی نگاہ سے دیکھے گے چونکہ مولانہ طاہر القادری کوئی سیاسی قوت نہیں، کچھ لوگوںکیلئے روحانی شخص ہیں، اب سیاست شروع کر دی ہے۔ایک ایسے وقت جب پورا ملک دہشت گردی کیخلاف آہنی دیوار بنا ہوا ہے ایسے میں ایک غیر ملکی پاکستان کی سرحدون کے اندر ایک غیر ملکی ائر لائن پر قبضہ کر لے، عوام کو شرمندہ کرے، دنیا بھر میں قوتوں کو اور ممالک کو پاکستان اور اسکے سیاسی نظام اور سکیورٹی کے نظام کو ہنسنے کا موقع دے اسے ہم ”لیڈر“ بنا دیں، میاں صاحب خدا کیلئے یہ نہ کریں۔ کوئی انجانے خوف اپنے اوپر طاری نہ کریں اپنی پالیسیوں اور عوام پر بھروسہ کریں۔