• news

باری کا سیاسی بخار

خان غلام دستگیر خاں ایک بزرگ سیاستدان ہیں… ایک مرتبہ وفاقی وزیر بھی رہے ہیں اب کیا یہ لکھنا بہت ضروری ہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء کا زمانہ تھا۔ خان غلام دستگیر خاں اس بڑھاپے میں بھی بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے داہنے ہاتھ میں خوبصورت چھڑی تھامے ہر شادی مرگ کی تقریب میں پہنچ جاتے ہیں اور سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہیں ان دنوں انہیں ڈاکٹرطاہر القادری ایک آنکھ نہیں بھا رہے وہ انہیں اپنے ٟٟشاندار،، رنگ میں بھنگ ڈالنے والی کوئی شے سمجھے بیٹھے ہیں۔ پھر انقلاب اور تبدیلی صرف انہیں اچھی لگتی ہے جو اقتدار سے باہر ہوں۔ اقتدار کے ایوانوں میں یہ نعرے بہت برے لگتے ہیں۔ خان صاحب کی شدید خواہش اور مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کینیڈین شہری کو اٹھارہ کروڑ عوام کی رائے کچلنے کی ہر گز اجازت نہیںدینی چاہئے۔ خان غلام دستگیر خاں نے الزام لگایا ہے کہ لاہور میں گیارہ قیمتی جانوں کے ضیاع اور اسلام آباد میں پرتشدد مظاہروں کے مظاہروں کے ذمہ دار صرف ڈاکٹر طاہر القادری ہیں۔ آئی جی پنجاب 4 نفل شکرانے کے ادا کریں کہ کہیں سے ان کی بے گناہی کے حق میں کوئی آواز بلند ہوا۔ خان غلام دستگیر خان نے بھولے بھالے عوام کو مشورہ یا کہ بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے کروڑوں روپوں سے آراستہ کنٹینر میں بیٹھ کر برگر کھانے والے شخص کی جادوگری سے بچیں۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے کسی کی آنکھ میں جادو ترے بیان میں ہے‘ ڈاکٹر صاحب بولتے ہیں تو ایک زمانہ انہیں ٹھہر کر سکتا ہے۔ مریدیں پر واقعی ڈاکٹر صاحب کا جادو چلتا ہے۔ اب جناب شہبازشریف نے ان کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں‘ لیکن کچھ بات بنی نہیں ایک زمانہ میں میاں فیملی بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی معتقد رہی ہے۔ لوگوں کے پاس اس سلسلہ میں سننے سنانے کے لئے باتوں ایک انبار موجود ہے۔ خان غلام دستگیر خان نے اپنے بیان میں ڈاکٹر طاہر القادری کے لئے ٟٟجعلی روحانی پیشوا،، کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن ٟٟشیخ الاسلام،، کے بارے میں ایسی رائے رکھنے والے وہ اکیلے آدمی نہیں پچھلے دنوں جناب مجیب الرحمان شامی کے ہاں کھانے پر اہل علم اور اہل خبر اصحاب جمع تھے۔ عام طور پر ایسی تقاریب کا اختتام شاعری‘ نت نئے لطیفوں اور بڑے لوگوں کے دلچسپ واقعات پر ہوتا ہے۔ اس محفل میں گفتگو ڈاکٹر طاہر القادری پر آن کر رک سی گئی۔ یار لوگوں نے یہ موضوع شامی صاحب کے ہاں کھانوں سے بھی زیادہ لذیذ پایا ڈاکٹر صاحب کی کرامات بڑی تفصیل سے بیان کی گئیں۔ کالم نگار ارشاد عارف سمیت کوئی بھی اپنا اختلافی نوٹ لکھنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ بیان کی گئی تمام تر کرامات کا معیار کسی گھٹیا سے ٟٟڈبہ پیر،، سے بہتر نہیں تھا۔ اب لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے چند جملے سن لیں۔ ٟٟمسٹر طاہر القادری خود غرض‘ دولت کے پجاری اور شہرت کے بھوکے ہیں۔ ان کا معیار زندگی ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا،، اس مرحلہ پر میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ بات آپ کسی بھی پاکستانی سیاستدان کے بارے میںلکھ سکتے ہیں ایک اور واقعہ بھی ہے جو لوگوں کو ابھی تک بھولا نہیں۔ جناب طاہر القادری دعویدار تھے کہ ان پر قاتلانہ حملہ کی گیا۔ فائرنگ کے نتیجہ میں ان کا ایک گن مین زخمی بھی ہوا۔ پولیس کو فرش پر گرے ہوئے خون کے دھبے پیش کئے گئے۔ یہ لطیفہ نہیں امر واقعہ ہے کہ لیبارٹری ٹیسٹ میں فرش پر گرا پڑا خون بعد ازاں انسانی خون نہیں بلکہ بکرے کا ثابت ہوا۔ بس ڈراموں میں تھوڑی بہت کسر رہ جاتی ہے۔ ورنہ شیخ الاسلام کے لئے مریدین کے انسانی خون کی کوئی کمی نہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا ٟٟمیں موت سے نہیں ڈرتا فقدان راحت سے میرا جی گھبرانے لگتا ہے‘ طاہر القادری نے بھی شہادت اور سکیورٹی دونوں شوق پالے ہوئے ہیں۔ وہ برملا کہہ رہے ہیں‘ بے شک میں شہید ہونا چاہتا ہوں۔ بہرحال ہمارے مختصر سے کالم میں ڈاکٹر طاہر القادری کا اتنا ہی تعارف ممکن ہے ورنہ میرے شہر گوجرانوالہ سے سلمان بٹ نے ان کے بارے میں 800 صفحوں کی کتاب لکھ ماری تھی۔ شیخ الاسلام کی پاکستان آمد پر انہیں اپنے مریدین کی طرف سے گیارہ انسانی جانوں کی سلامی پیش کی گئی۔ آپ محسوس نہ کریں ڈاکٹر طاہر القادری بھی اسے ٟٟسلامی،، ہی سمجھتے ہیں یہ بھی سچ ہے کہ اگر مریدین مزاحمت نہ کرتے تو پولیس کے لئے انہیں مارنا ممکن نہ تھا۔ واہ ! ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی لاہور‘ اسلام آباد میں ایک طوفان برپا کر دیا۔
 کودا تیرے گھر پہ کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہوگا
پاکستان میں سیاست جاگیرداری اور سرمایہ داری کے گرد گھوم رہی ہے۔ کالے دھن کی سیاست میں سرائیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پاکیزہ سیاستدان بھی الیکشن میں ناجائز کمائی والے لوگوں کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ایماندار سیاستدانوں کو بددیانت لوگ گھیرے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر پارٹی فنڈ لیتے ہوئے جائز ناجائز آمدن کا خیال رکھنا ممکن نہیں۔ سوشلسٹ رائٹر لال خان نے بہت دلچسپ بات لکھی ہے۔ ٟٟگھر میں کسی کے جاگنے کے آثار نظر آئیں تو چور بھاگ اٹھتا ہے۔ جب پکڑے جانے کے امکانات بڑھ جائیں تو یہی چور محلے داروں کے ساتھ مل کر چور چور چلانے لگتا ہے،،۔ آج پاکستان کے حکمران کی کفیت اس سے مختلف نہیں۔ انقلاب کے خوف میں خود انقلابی بن بیٹھے ہیں ،، انقلاب اور تبدیلی کے کئی راستے ہیں۔ عمران خان کم و بیش اسی سرمایہ دارانہ نظام کے احاطہ کار میں تبدیلی کے عمل کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ صرف صاف شفاف الیکشن ‘ ٹیکس کولیکشن اور کرپشن کی روک تھام سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں اگر میجر آپریشن کے بغیر ہی مریض کا علاج ممکن ہو تو یہ آپشن آزما لینا چاہئے ویسے خان صاحب جاگیرداری کے باب میں بالکل خاموش ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری آگے بڑھ کر جاگیرداری کے خاتمہ اور حد ملکیت کی بات کرتے ہیں 2013ء کا الیکشن جاگیرداری کے مسئلے کو چھیڑے بغیر لڑا گیا۔ کسی پارٹی نے جاگیرداری کے خاتمہ کی بات نہیں کی۔ پاکستان کے سیاسی پیش منظر میں 30 اکتوبر 2011 ء کے ٟٟدرود مسعود،، سے پہلے سیاست فقط دو گھروں میں گھری ہوء یتھی۔ ان دونوں نے اپنی اپنی باریاں مقرر کی ہوتی تھیں۔ ووٹروں کے لئے کوئی تیسری آپشن موجود نہیں تھی۔ پہلے عمران خان اور اب ڈاکٹر طاہر القادری نے عوام کو نیاچانس دیا۔ آپ ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت سے لاکھ اختلاف کریں لیکن آپ ان کے فرمودات سے اختلاف نہیں کر سکتے ہیں۔ انقلاب کی باتیں‘ جاگیرداری کے خاتمہ کی باتیں ‘ نظام بدلنے کی باتیں‘ سید علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب ٟٟرسوم اقوام،،میں ایک بڑی دلچسپ بات لکھی ہے۔ قدیم ہندوستان میں باری کے بخار کو ختم کرنے کے لئے چوری کے مرغے کا گوشت کھایا جاتا تھا لیکن پاکستانی قوم کی چوری کے مرغے کا گوشت کھائے بغیر ہی ٟٟباری کے سیاسی بخار،، سے جان چھوٹ گئی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن