ماں کا انصاف اور آنکھوں میں لکھی ہوئی تحریر
میں ایک بات کرتا ہوں کہ ماں کا انصاف نافذ کر دو تو یہ معاشرہ جنت بن جائے گا۔ یہ بات تحریک انصاف والوں کے لئے خاص نہیں ہے مگر یہ دیکھا جائے ہماری سیاست اور ہمارے معاشرے میں بے انصافی بہت ہے۔ اور یہ ظلم سے بھی بڑا ظلم ہے۔ اس حوالے سے مجھے ایک اور بات یاد آئی ہے اور میں نے کئی بار اس کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ بات صاحب عرفان و حقیقت بابا عرفان الحق نے بتائی ہے۔ ایک حدیث ہے۔ اب جو مشہور عالمی ضرب المثل بن گئی ہے ”ماں کے قدموں تلے جنت ہے“۔ بابا جی نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ ماں کے لئے کوئی تخصص نہیں ہے۔ جیسی وہ ہوتی ہے۔ اس کے لئے نہ کوئی حد ہے نہ حساب۔
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
یہ بات میں نے آنکھوں کے بہت اہل اور اہل دل ڈاکٹر خالد وحید کو سنائی تھی تو وہ وجد میں آ گئے اور انہوں نے اپنی ماں کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ ہر کوئی اپنی ماں کی باتیں کرتا ہے اور ایک جیسی باتیں کرتا ہے۔ ماں سانجھی ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری بستی میں کسی بچے کی ماں سب کی ماں ہوتی تھی اور وہ دوسرے بچوں کے ساتھ بھی اپنے بچوں جیسا سلوک کرتی تھی۔ نہ کم نہ زیادہ۔
ڈاکٹر خالد بہت خوبصورت تازہ دم ہیں۔ مریضوں کے ہجوم میں بھی کبھی پریشان نہیں ہوئے۔ ہنس مکھ۔ ایسے ڈاکٹر کو دیکھ کر آدھی بیماری دور ہو جاتی ہے۔ رات دو بج جائیں تو بھی وہ آخری آدمی کو بھی دیکھ کر گھر جاتے ہیں۔ وہ تھکتے نہیں۔ انہوں نے تھکن اور لگن کو ملا جلا دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں 20 آپریشن کروں، 20مریضوں کو دیکھوں تو وہ 80 سے زیادہ نفل پڑھتی ہیں۔ مریض بڑھتے گئے تو ان کے نفلوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ اپنی ماں کی باتیں کرتے ہوئے ایک خاص رنگ کی خوشی ان کے چہرے پر ہوتی ہے۔ جسے صرف سرخوشی کہا جا سکتا ہے۔ سرخوشی کا ہم ترجمہ نہیں کر سکتے۔ اس کی صرف ترجمانی کی جا سکتی ہے۔ سرخوشی دیکھنا ہو تو ڈاکٹر خالد کو دیکھو جب وہ اپنی ماں کا ذکر کر رہا ہو۔ شاید ہر کوئی اپنی ماں کا ذکر کرتے ہوئے اسی حال میں چلا جاتا ہے۔
ڈاکٹر خالد بہت اچھے انسان ہیں۔ اپنی تکلیف بیماری کے علاوہ کوئی مریض کوئی بھی بات کرنا شروع کر دے تو وہ بڑے غور اور دلچسپی سے سنتے ہیں اور اس کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے وہ انتظار کرتے ہیں اور بیزار نہیں ہوتے۔ انہیں بڑی اچھی طرح دوستانہ انداز میں ڈاکٹر صاحب کے اسسٹنٹ طارق سنبھالے رکھتے ہیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ انتظار کرنے لگتے ہیں۔ وہ دل والوں کی قدر بھی کرتے ہیں۔ مجھے ان کے ہاں ن لیگ کے ایم پی اے بہادر اور روایت والے جوان برادرم نجیب اللہ خان نیازی لے کے گئے تھے اور وہ کسی تکلف کے بغیر اندر چلے گئے۔ انتظار کرنے کے لئے اعتبار کرنا پڑا۔ لوگ ڈاکٹر صاحب کا اعتبار کرتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔ اب زندگی روٹھتی جا رہی ہے کہ ہم نے انتظار کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے اعتبار کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
میری امی بہت بوڑھی ہیں مگر لگتی نہیں ہیں۔ میں گھر سے صبح نکلتا ہوں تو وہ باہر آتی ہیں۔ دم کرتی ہیں۔ میری گاڑی کو بھی دم کرتی ہیں۔ کہتی ہیں۔ اللہ دے حوالے تے اللہ دے حبیب دے حوالے۔ پھر مجھے خود بخود تسلی ہو جاتی ہے کہ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ کوئی میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ میرے گھر اور گاﺅں کا کلچر ہے۔
ڈاکٹر صاحب بہت ماہر ڈاکٹر ہیں مگر وہ اپنی سب اہلیت کا کریڈٹ اپنی ماں کو دیتے ہیں۔ ماں کی دعا ایک ایسی طاقت ہے جس کے مقابلے میں کوئی طاقت نہیں آ سکتی۔ ہمارے شہر میں رکشوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ماں کی دعا۔
ماں خدا کی طرح عظیم ہے۔ کائنات میں خدا کی نمائندگی کرنے والی کوئی مخلوق ہے تو وہ ماں ہے۔ حشر کے دن لوگوں کو ماں کے رشتے سے بلایا جائے گا۔ ماں کی نسبت سے مشہور ہونے والے لوگ ہمیشہ خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ماں میرے پاس نہیں رہتی۔ میں نے ساتھ میں اپنا گھر بنا لیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر کا گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ اس گھر میں بڑے بھائی رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ماں بھائی کے ساتھ رہتی ہیں بلکہ یہ کہا کہ بھائی ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ یہ رشتے کا فطری پروٹوکول ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ اس طرح پوری فیملی میں یہ مرکزی گھر ہے۔
شاہ حسین کا یہ مصرعہ سب لوگوں کا پسندیدہ ہے:
مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال
ماں کے علاوہ جدائی کا درد اور کوئی بھی دکھ کسی دوسرے کو نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اپنی بچیوں کی سہیلی ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کی بھی دوست ہوتی ہے۔ ان کی ہم عصر اور ان کی ہم عمر بھی۔ ڈاکٹر خالد آنکھوں کے ڈاکٹر ہیں۔ انہیں بہت سے اشعار اس حوالے سنائے جا سکتے ہیں:
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
مگر افضل رندھاوا کا یہ پنجابی شعر
ہن تے کجھ نئیں نظری آندا
ہور اک دیوا بال نی مائے
میری گذارش ہے کہ وہ اپنی ماں کی خدمت میں میرا سلام نیاز پہنچائیں۔ وہ میری بھی ماں ہے۔ میرے لئے دعا کریں اور دو نفل پڑھیں۔ سوہنی سچی عورت کی دو خواہشیں ہوتی ہیں اور یہ فطری ہیں۔ دلہن بننا اور ماں بننا۔