طاہر القادری کی حرکتیں بچگانہ ہیں، حکومت کے خاتمے کی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے: سمیع الحق
راولپنڈی (سلطان سکندر) مذاکرات کے دوران میڈیا کی توجہ کے مرکز بننے والے جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے ’’گویم مشکل وگرنہ گو ہم مشکل‘‘ کے مصداق حکومت طالبان مذاکرات کے ڈراپ سین اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے انتہائی محتاط طرز عمل اختیار کرتے ہوئے میڈیا سے سردست کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا سے بات نہ کروں تو کہتے ہیں کہ خاموش ہوں اور بات کروں تو کہتے ہیں کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہا ہوں، میں خاموش نہیں ہوں بلکہ سکتے کے عالم میں ہوں کہ ہماری چار پانچ ماہ کی مخلصانہ کوششوں پر پانی پھر گیا ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ امن قائم ہو۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد پہلی بار اکوڑہ خٹک سے فون پر نوائے وقت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ہم نے حکومت اور طالبان کے مذاکرات کے دوران امریکہ اور دیگر خطرات کے باوجود حکومت سے بلٹ پروف گاڑی تو کجا پولیس کی سکیورٹی بھی نہیں مانگی تھی۔ ڈاکٹر طاہر القادری بچگانہ حرکتیں کر رہے ہیں کبھی فوج کی سیکیورٹی کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی بلٹ پروٹ گاڑی کا اور بالآخر گورنر کے ساتھ اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں ان کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی بات ناقابل فہم تھی اس کا ایجنڈا واضح نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کو اس میں نہیں جانا چاہئے تھا۔ مولانا فضل الرحمنٰ ہماری مذاکراتی کمیٹی کی مخالفت کرتے تھے مگر اب وہ خاموش ہیں ہم نے تو کہا تھا کہ وہ آگے آئیں اور قبائلی جرگے کے ذریعے مسئلہ حل کریں تو ہمیں کیا اعتراض ہے۔ خدا کرے کہ ملک میں امن قائم ہو۔ پارٹی رہنمائوں سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ جمہوری حکومت کے خاتمے کی تحر یک کا حصہ نہیں بنیں گے‘ انتخابی اصلاحات اور تبدیلی کی بات کرنیوالوںکو لانگ مارچ اور تحر یک چلانے کی بجائے جمہوری رویہ اپنانا چاہئے‘ ہم بھی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ اور قیام امن چاہتے ہیں۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا عاصم مخدوم اور دیگر پارٹی راہنمائوں سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت بڑی قربانیوں کے بعد آئی ہے اس لیے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور اداروں کو مضبوط کرنے کیلئے کردار ادا کریں۔