• news

سوال و جواب سانحے اور پھانسی

عمران نے چار سوال پیش کئے اور پھانسی کی بات بھی کی۔ کیا یہ بھی سوال ہے۔ پرویز رشید نے جواب دیئے۔ اسے معلوم نہیں کہ سوال کے اندر جواب ہوتا ہے۔ پرویز رشید کو نہ سوال کرنا آتا ہے نہ جواب دینا آتا ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ نواز شریف سے الیکشن کے نتائج آنے سے پہلے تقریر میں نے کروائی تھی۔ مجھے پھانسی دو۔ انہیں پتہ ہے کہ اس طرح پھانسی نہیں ملتی ورنہ وہ اتنے بزدل ہیں کہ یہ بات نہ کہتے۔ ان کی خواہش پھانسی نہیں ہے۔ کچھ اور خواہش ہے بلکہ ہزاروں خواہشیں ہیں کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔ پرویز رشید میں اتنا دم خم نہیں ہے مگر بچگانہ بیان بازی تو ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر قادری اور عمران خان نے شریف برادران کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور قادری صاحب اپنے مریدوں کو دم بھی کرتے ہیں اور اس سے بھی پرویز رشید ڈرتے ہیں۔ اب سے دو سال پہلے ایک تقریب میں پرویز رشید اور مجیب شامی کے علاوہ برادر کالم نگار فاروق عالم انصاری بھی تھے۔ پرویز کہنے لگے کہ بھارت میں امن و امان کی سیاسی صورتحال اچھی ہے۔ فاروق نے کہا کہ وہاں مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں ہے اور پرویز رشید جیسے وزیر بھی نہیں ہیں۔
پرویز رشید جھوٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف سے تقریر کرائی۔ وہ تو نواز شریف  کی تقریر لکھ نہیں سکتے۔ وہ تو نواز شریف کے سامنے سر اٹھا نہیں سکتے۔ میٹنگز میں خاموش مودب بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ تو نواز شریف کا فون آجائے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور ادب سے سنتے ہیں۔ صرف سنتے ہیں بولتے نہیں ہیں۔ انہیں اس جرم کے لئے سزا دی جائے کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے۔ جو وہ بیانات میں دھڑا دھڑ بولتے ہیں۔
یہاں ایک لطیفہ یاد آیا ہے۔ ہر لطیفے کے پیچھے کچھ نہ کچھ حقیقت ہوتی ہے تلخ حقیقت تو ہوتی ہی ہے۔ کہیں قتل ہو گیا نامعلوم اور اندھا قتل تھا۔ انتظامیہ اور حکومت پریشان تھی ایک سردار صاحب نے اعلان کیا کہ قتل میں نے کیا ہے۔ عدالتوں میں بھی اعتراف جرم پر اسے پھانسی ہو گئی۔ تختہ دار پر کسی نے کہا کہ سردار جی ہمیں پتہ ہے کہ آپ نے قتل نہیں کیا۔ تو یہ کیا ڈرامہ ہے۔ سردار جی نے بڑے فخر سے بیان کیا کہ آپاں حکومت نوں تھک لائی ہوئی ہے۔
ہم نے حکومت کو چکمہ دے رکھا ہے۔ یہ سوچنا نواز شریف کا کام ہے کہ پرویز رشید کس کو تُھک لگا رہے ہیں۔ پرویز رشید اتنے بہادر نہیں ہیں بلکہ وہ بہادر تو بالکل نہیں ہیں کہ موت کو قبول کر لیں۔ وہ عمران خان سے مذاق کر رہے ہیں۔ دونوں میں مذاق چلتا ہے۔ نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ پھانسی پانا گولی کھانے سے بڑا عمل ہے۔ عراقی صدر صدام حسین نے تختہ دار پر جو جرات دکھائی۔ ہم نے اس کے سارے جرائم معاف کر دیئے۔ اس نے امریکہ کو شرمندہ کر دیا تھا۔
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
یا تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کا
یہ دونوں مرتبے حکومت کے غلام لوگوں کی قسمت میں نہیں ہوتے۔ وزیر شذیر خاص قسم کے غلام اور ملازم ہوتے ہیں۔ آج تک کوئی ایسا وزیر نہیں اس کا نام اس وجہ سے زندہ رہے۔ ہمارے ہاں وزیراعظم بھی ایسے ہی تھے کہ وزیر نام کی عورت نے اعظم نامی آدمی سے شادی کی اور لوگوں نے اسے وزیراعظم کہنا شروع کر دیا۔ جس ملک میں نااہل اور کرپٹ یوسف رضا گیلانی‘ پرویز مشرف‘ شوکت عزیز اور وغیرہ وغیرہ جیسے وزیراعظم ہوں وہاں وزیر شذیر کیا کیا ہونگے شیریں مزاری نے بھی کہا ہے کہ پرویز رشید بے معنی بے ہودہ باتیں کرتے ہیں۔ سوال کیا ہے اور جواب کیا ہے۔ شیریں صاحبہ کی خدمت میں عرض ہے کہ پرویز سوال اس طرح کرتے ہیں جیسے جواب دیتے ہیں۔ لاجواب کرنے کی کوشش سوال کو بھی مار دیتی ہے۔ شیریں کے خیال میں وہ غیر سنجیدہ ہیں اور مسخریاں کرتے ہیں۔ پھکڑپن سے سیاست نہیں ہوتی۔ سیاست تو ہوتی ہی پھکڑ پن ہے۔
اب تک ہماری حکومتوں میں کیا ہوتا رہا ہے۔ اپوزیشن بھی حکومت سے کم نہیں ہوتی۔ جہاں مولانا فضل الرحمن اور خورشید شاہ جیسے لوگ اپوزیشن لیڈر ہوں۔ وہاں بنے گا کیا۔ پھانسی لگانے کی بات عمران نے بھی ٹھیک نہیں کی۔ وہ ابھی وزیراعظم کے لہجے میں بات کرتا ہے۔ اس کی ’’جمہوریت‘‘ یعنی حکومت میں کیا سے کیا ہو جائے گا۔
پھر تو اس کے پاس پھانسی دینے کے صوابدیدی اختیارات ہوں گے۔ اس طرح کی زبان کچھ سیاستدان استعمال کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے بعد بلاول بھٹو زرداری گڑھی خدا بخش میں صدر زرداری نے ایسی ہی زبان استعمال کی تھی اس میں راز کیا ہے سیاست کیا ہے۔ شہباز شریف بھی غصے میں اور جوش میں کیا کیا کچھ کہہ جاتے ہیں۔ آج کل ڈاکٹر قادری اور شیخ رشید بھی حتیٰ کہ رانا ثناء اللہ بھی مگر اب وزیر نہ رہ کر وہ بات ذرا ٹھیک طرح سے کرنے لگے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ اب انہیں دوبارہ وزیر نہ بنایا جائے مگر میں ایسی تجویز نہیں دیتا۔ اور میری تجویز پر کونسا عمل ہو جائے گا۔ انہوں نے عمران کے چار سوالوں کے جواب میں انہیں سوال کر دیئے ہیں۔ ان کے جواب بھی پرویز رشید کو نہیں آتے ہوں گے۔ گولی چلانے کا حکم رانا صاحب نے نہیں دیا تھا مگر کارروائی کرنے کا حکم تو انہوں نے دیا تھا پھر پولیس والوں کی مرضی ہے کہ وہ کارروائی کریں یا کارروائی ڈالیں جس طرح وہ ہجوم عاشقان کے درمیان عدالت میں عدالتی کمشن کے سامنے اپنا بیان دینے آئے۔ وہ ان کے ایک سیاستدان ہونے کے لئے کافی ہے۔ لوگوں کو ابھی امید ہے کہ وہ وزیر ہیں۔ رانا صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ ایک عام آدمی کے طور پر آئیں گے اس طرح تو خاص آدمی بھی نہیں آتے؟
کئی بار وزیر شذیر رہنے والے شاہ محمود قریشی بھی کہتے ہیں کہ لاشوں پر سیاست نہیں ہونا چاہئے مگر جناب! لاشوں پر حکومت تو ہونا چاہئے؟ وہ خود کرتے رہے ہیں تو بتایا جائے کہ لاشیں گرائیں کس نے؟ پرویز رشید کی نئی ’’وزارت بیانی‘‘ دیکھو۔ دیکھنا یہ ہے کہ کہیں  قادری صاحب خود نہ اس قتل و غارت میں ملوث ہوں؟ سبحان اللہ پرویز رشید کیا ’’نزدیک‘‘ کی کوڑی لائے ہیں۔ برادرم خواجہ سعد رفیق نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کیس  میں طاہر القادری بھی ملوث ہیں۔ ’’لفظ‘‘ ’’بھی‘‘ پر غور کریں۔ اس کی وضاحت بھی خواجہ صاحب کر دیتے تو بہتوں کا بھلا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سے استعفیٰ مانگنے والے لال مسجد سانحے پر مستعفیٰ کیوں نہ ہوئے۔ مانگنے کا کیا ہے۔ لوگ مانگتے ہی رہتے ہیں۔ دینا تو اپنی مرضی سے ہوتا ہے پھر سانحہ کا کیا ہے۔ اس ملک میں ہمیشہ سانحے ہی ہوتے رہے ہیں۔ سب حکومتیں اس لحاظ سے برابر ہیں مگر یہ رویہ کیا ہے کہ میں نے کیا ہے تو تم نے بھی تو کیا تھا۔ آجکل چینلز پر اور ہر کہیں یہی طرز گفتگو چل رہا ہے۔ طرز گفتگو نئے وزیر قانون رانا مشہود  کا اچھا ہے۔ مگر ان کی مونچھیں رانا ثناء اللہ جیسی ہیں اور وہ رانا بھی ہیں۔ سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ راجہ اور رانا میں کیا فرق؟

ای پیپر-دی نیشن