طاہر القادری کی اے پی سی سے کوئی نئی چیز برآمد نہیں ہو سکی
لاہور (تجزیہ۔محمد اکرم چودھری)ڈاکٹر طاہر القادری کی اے پی سی سے کوئی نئی چیز برآمد نہیںہوسکی،کانفرنس کا فوکس ماڈل ٹائون میں عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کا واقعہ تھا ، طاہر القادری اس پوائنٹ سے خود آگے بڑھے اور نہ کسی کو اس معاملے سے ہٹنے دیا۔ عوامی تحریک کے علاوہ تحریک انصاف، ایم کیو ایم،ق لیگ ، جماعت اسلامی اوراے پی سی میں شامل دیگر جماعتیں پہلے بھی کم وبیش حکومت سے وہی مطالبات کر رہی تھیں جو انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم سے پیش کئے۔علامہ طاہر القادری نے ایک بار پھر سیاسی قوتوں کو ان خیالات کا اظہار کر کے مایوس کیا ،جو بیان دے کر انہوں نے اپنے گھر میںچودھری برادران کو بے مزہ کیا تھا،چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کو دوبارہ اسی مقام پر دیکھ کر لوگوں کوقدرے حیرت ضرور ہوئی۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر وزیراعلٰی سے استعفے کا مطالبہ، ذمہ دار پولیس اہلکاروںکی گرفتاری، آئی بی، آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں سے تحقیقات پر اصرار پہلے سے ہی کیا جا رہا تھاجبکہ تحقیقاتی کمیشن بھی تسلیم نہیں کیا گیا تھا اور اب بھی یہ مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل بنچ کیس کی سماعت کرے۔ مولانا طاہر القادری کی اب تک کی سرگرمیاںمیدانِ سیاست اورصحافت کے اُن جغادریوں کے لئے شرمساری کا باعث ہونی چاہئیں جو علامہ قادری کی آمد کے پس پردہ مقتدر قوتوں کے کردار کو زیر بحث لا رہے تھے۔ طاہر القادری کی پاکستان آمد کے بعد ان کا پہلا خواب اسلام آباد میں کارروانِ انقلاب کی چُھٹی ہونے پر چکنا چور ہوا، اس کے بعد لاہور میں بھی وہ اضطراب کا شکار دکھائی دیئے۔یہاں گورنر پنجاب چودھری سرور کے دانشمندانہ کردار نے حکومت اور طاہرالقادری دونوں کی عزت بچا لی، وزیراعظم نے بھی اس مشکل اسائنمنٹ پر کامیابی سے پورا اترنے پر چودھری سرورکو ذاتی طور پرخراج تحسین پیش کیا۔جس وقت طاہرالقادری لاہور ائیرپورٹ پر فوج فوج پُکار رہے تھے اُس وقت چودھری سرور کی صورت میں درمیانی راستہ دکھائی دیا اور انہوں نے اپنی سوجھ بوجھ سے اُلجھے ہوئے بحران کا حل ڈھونڈ نکالا ۔ اس صورتحال سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں فوج کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں تھا۔ دفاعی ادارے کو بلاوجہ متنازعہ سیاسی امور میں گھسیٹنے کا فیشن چل نکلا ہے اور میڈیا پر موضوع پر دسترس سے عاری افراد کی ا حمقانہ خیال آرائی کو آزادی اظہار کا جمہوری حق قرار دے کر افواہوں کا راستہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے موقف میں اتار چڑھائو جہاں حکومتی حلقوں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے وہیں گرینڈ الائنس کی خواہاں سیاسی جماعتیں بھی کچھ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں۔ اپوزیشن سیاسی جدوجہد کی بات کرتی ہے تو علامہ طاہرالقادری انقلاب کے دائرے میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ اسلام آباد دھرنے سے لے کر لاہور کی اے پی سی تک عوامی تحریک کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ وہ تنہا پرواز چاہتی ہے ، سیاسی اور دینی جماعتیں اگر ایک ایک کرکے مایوس ہو گئیں تو ڈاکٹرطاہر القادری عنقریب سیاسی میدان کے بارہویں کھلاڑی بن جائیں گے۔
تجزیہ