چند سیاسی چٹکلے
21جون کے” نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان تھا ”نظریاتی دہشت گردوں کے خلاف بھی آپریشن“ مَیں نے”نظریاتی دہشت گرد“ اُن مذہبی لیڈروں کو قرار دِیا تھا جِن کے بزرگوں نے سرسیّداحمدخانؒ، علّامہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کے خلاف کُفرکے فتوے دئیے تھے۔ جن کے مدرسوں میں ”مطالعہ پاکستان کا مضمون“ نہیں پڑھایا جاتا اور جو الیکٹرانک میڈیا پر آ کر ببانگِ دہل، دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں“۔ مَیں نے سوال کِیا تھا کہ اِن نظریاتی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کون کرے گا؟ پاک فوج یا قائدِاعظمؒ کی یادگار مسلم لیگ کی وفاقی حکومت؟۔
”داد طلب پرویز رشید“
29جون کو وفاقی وزیرِا طلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے ایک ٹاک شو میں میرے خیالات کو اپنے لفظوں میں بیان کرتے ہُوئے کہا کہ ”دہشت گردوں کا ہیڈکوارٹر شمالی وزیرستان میں ہے جب کہ اُن کے نظریاتی ہیڈ کوارٹرز پورے مُلک میں ہیں۔ انہیں ختم کرنا جمہوری قوتوں کی ذمہ داری ہے“۔ دو شاعر اگر بیک وقت ایک ہی مضمون باندھیں یعنی ایک ہی بَیت یا مِصرع دو شاعروں کی تخلیق ہو تو شاعری کی اصطلاح میں اُسے ”توارد“ کہتے ہیں لیکن اگر کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کا مطبوعہ کلام اپنے نام سے چھپوائے یا سُنائے تو اُس واردات کو ”سرقہ“ (چوری) کہا جاتا ہے۔ اصولی طور پر پرویز رشید صاحب کو میرے کالم کا حوالہ دینا چاہئے تھا۔ اِسی طرح کی صُورتِ حال میں کسی شاعر نے جناب پرویز رشید جیسے ”داد طلب“ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ....
”اپنے انداز میں اپنے دِل کی کہو!
مِیر کا شعر تو مِیر کا شعر ہے“
”مودی کے بعد زرداری!“
خبر ہے کہ”وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے ”خِطّے میں امن کی خاطر“ بھارت کے وزیرِاعظم شری نرِیندر مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے بعد اب موصوف ”جمہوریت کے تسلسل“ کے لئے جناب آصف زرداری سے مُلاقات کے لئے مسلم لیگ ن کے لیڈروں کا ایک وفد لے کر سندھ جائیں گے“۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بعد خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ ”مَیں اِس سانحہ میں جاںبحق ہونے والوں کی دُعائے مغفرت کے لئے ادارہ منہاج اُلقرآن کے سیکرٹریٹ میں سر کے بل بھی جانے کو تیار ہوں“۔ لیکن علّامہ القادری نے اجازت نہیں دی۔ جناب ِ زرداری وزیرِاعظم کے ساتھ ایک ”نیا مِیثاقِ جمہوریت“ خوشی سے کر لیں گے۔ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے مُبیّنہ طور پر کرپٹ لیڈروں کا کوئی کیا بگاڑ لے گا؟۔ 11مئی2013ءکے عام انتخابات سے قبل خادمِ اعلیٰ پنجاب اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ ”جب مسلم لیگ ن پھر اقتدار میں آئے گی تو مَیں 40 چوروں کے سردار آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسِیٹوں گا اور اُس سے قوم کی لُوٹی ہوئی دولت وصول کروں گا‘۔ شاید خادمِ اعلیٰ اپنے برادرِ بزرگ کے ساتھ جنابِ زرداری سے ملاقات کے لئے نہ جائیں!۔
”چودھری نثارکی قربانی؟“
خبر ہے کہ ”دو ہفتے قبل انجیوگرافی کے بعد وزیرِ داخلہ چودھری نثار صحت یاب ہو گئے ہیں اور وہ آئندہ چند روز میں برطانیہ کے نجی دورے پر جا رہے ہیں“۔ یہ دَورہ کِتنے دِنوں یا مہینوں کا ہو گا؟ خبر میں نہیں بتایا گیا جب سے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہُوا ہے چودھری صاحب اِس معاملے میں کم ہی بولتے ہیں کیونکہ جِن دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے ان میں سے کچھ گروپوں کو چودھری صاحب نے قومی اسمبلی کے ایوان میں ”مُحبِّ وطن“ ہونے کا سرٹیفیکٹ جاری کر دِیا تھا۔ اگر وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف حالات سے سمجھوتہ کرکے اپنے دوست پنجاب مسلم لیگ ن کے اہم ستون، مُونچھ بردار راجپوت رانا ثنااللہ خان کی قُربانی دے سکتے ہیں تو وزیرِاعظم وفاقی حکومت کے پلّے دار اور کلِین شیو راجپوت کی قُربانی کیوں نہیں دے سکتے؟۔