’’دعوتِ افطار و گُفتار!‘‘
قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لئے میاں نواز شریف کی طرف سے سرکاری دعوت ہائے افطار پر پابندی ہے۔ وزیرِاعظم، وفاقی وُزرائ، مُشِیران اور دوسرے حکومتی ارکان اگر اپنے پلّے سے یہ ثواب حاصل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ چنانچہ سب (متاثرین) نے وزیرِاعظم کی اِس ہدایت کو پلّے باندھ لِیا ہے۔ ماہِ رمضان کے بعد اپنا کلام سُنانے کے لئے اپنے پسندیدہ مہمانوں کو دعوت ہائے طعام پر مدعُو کر کے اپنا شوق پورا کر لیں گے لیکن اسلام آباد میں ایک (سابق) بیورو کریٹ وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود نے ہر سال اپنے پلّے سے دو اڑھائی سو اصحاب و صاحِبات کو دعوتِ افطار و گُفتار پر مدعُو کرنے کی اپنی 6 سالہ روایت قائم رکھی۔ دراصل سیّد انور محمود کے پاس ’’شاہ خرچی‘‘ کے وسائل اِس لئے ہیں کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے "Consultancy And Advocacy" کا ایک بہت بڑا ادارہ بنا رکھا ہے جِس میں کئی ریٹائرڈسِول اینڈ مِلٹری بیوروکریٹس خِدمات انجام دے رہے ہیں۔ دراصل بات حوصلے کی ہے۔
سیّد انور محمود سے میرا تعلق 1973ء سے ہے لیکن دوستی 1992ء میں ہوئی جب وہ وزیرِاعظم نواز شریف کے پریس سیکرٹری تھے۔ مَیں اُن دِنوں ’’نوائے وقت‘‘ میں کالم لِکھا کرتا تھا۔ سیّد صاحب کہا کرتے ہیں کہ ’’مَیں نے پاکستان کے لئے دو بار ہجرت کی ہے۔ پہلی بار بہار سے ڈھاکہ تک اپنے والدین کے ساتھ جب مَیں 6 ماہ کا تھا اور دوسری بار دسمبر1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ڈھاکہ سے کراچی تک۔‘‘ سیّد صاحب مجاہدِ تحریکِ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو ایک "Living Legend" قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’بنگلہ دیش کے کیمپوں میں کس مپُرسی کی زندگی بسر کرنے والے ’’حقیقی پاکستانیوں‘‘ (بہاریوں) کو پاکستان میں لا کر بسانے میں صِرف ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو دلچسپی ہے وگرنہ ہر دَور کے حُکمران تو انہیں بھُول ہی چُکے ہیں۔‘‘ صدر جنرل پرویز مشرف نے سیّد انور محمود کو بنگلہ دیش میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کر دِیا تھا لیکن وزارتِ خارجہ کے ماہرینِ فن کے "Rules" آڑے آ گئے تھے۔
دعوتِ افطار و گُفتار میں تِین سابق وفاقی وزرائے اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد، جناب نثار احمد میمن اور جناب محمد علی دُرانی، چار سابق سیکرٹریز وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات جناب سلیم گُل شیخ، جناب اشفاق احمد گوندل، منصور سُہیل اور چودھری رشید احمد کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری چودھری محمد اعظم اور سابق ایڈیشنل سیکرٹری محترمہ مُبشرہ نگہت باجوہ اور انفارمیشن اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد سلیم بیگ کے علاوہ "Serving" اور الیکٹرانک مِیڈیا کے سینئر صحافی اور اینکر پرسنز (جو اپنے ٹاک شوز میں سیاستدانوں کو مُرغوں کی طرح لڑاتے ہیں)۔ وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات اور اُس سے مُلحقہ اداروں کے سبھی سربراہان (خواتین و حضرات ) موجود تھے۔
سب مہمانوں کا وقت بہت ہی قیمتی ہوتا ہے لیکن سیّد انور محمود سے اُن کی محبت اُنہیں ہر سال یکم یا دو رمضان کو اِس جشن دوستاں میں کھینچ لاتی ہے۔ یہ ایک ایسی برادری کا اجتماع تھا جِس کے ارکان نظریات کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں اور اپنے اپنے زاویۂ نظر سے پاکستان کو پُرامن، ترقی یافتہ اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہال میں 20 "Round Tables" (گول میز) تھِیں لیکن مہمانوں کی گفتگو محض "Table Talk" نہیں تھی۔ ہر میز کے گرد دس دس کرسیوں پر رونق افروز مہمان پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی سے مباحثہ اور مناظرہ کر رہے تھے۔ ہر مہمان نے اپنی میز سے اُٹھ کر دوسری میز پر جانے کی آزادی سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ مَیں نے بھی دس میزیں تبدیل کِیں اور اِس طرح مَیں 90 مہمانوں (خواتین و حضرات) کا ’’میز بدل بھائی‘‘ بن گیا۔ میرے اور دوسرے مہمانوں کے عمل کو ’’فلور کراسنگ‘‘ یا ’’لوٹا اِزم‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو شہد کی مکھی کی تقلید تھی جو ہر پھول سے مٹھاس حاصل کر لیتی ہے۔
جِس مسئلے پر سب سے زیادہ بحث ہوئی وہ تھا پاکستان کی بقا کا۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ۔’’ ضرب اُلعضب‘‘ پر اطمینان کا اظہار کِیا گیا لیکن 5 لاکھ سے زیادہ متاثرین شمالی وزیرستان کے مسائل پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا، وزیرِاعظم نواز شریف کا ’’معاشی دھماکا‘‘ کرنے کا وعدہ وفا کیوں نہیں ہُوا؟ لوڈشیڈنگ کا عذاب کب ختم ہو گا؟ کیا واقعی میاں صاحب کی حکومت کا دَور مکمل ہونے تک لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی؟ بیروزگاری، غُربت، بیماری اور جہالت کا کوئی علاج ہو سکے گا یا نہیں؟ علّامہ طاہر اُلقادری کا ’’سبز انقلاب‘‘ کیا رنگ دِکھائے گا؟ اورکیا کہیں علّامہ القادری کا ’’سبز رنگ‘‘ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی ’’لال حویلی‘‘ کے رنگ کو بد رنگ تو نہیں کر دے گا؟ میری 12سال بعد شیخ رشید احمد سے مُلاقات ہوئی اور اُن سے جپھّی ڈالنے کا موقع مِلا۔ شیخ صاحب نے سب سے پہلے ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی صحت کے بارے میں دریافت کِیا۔ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نظامی صاحب تندرُست و توانا اور چاق و چوبند ہیں۔ پھر مَیں نے شیخ صاحب کو علّامہ اقبالؒ کی نظم ’’ہمالہ‘‘ کا ایک شعر بھی سُنایا اور کہا کہ علّامہ صاحب کا یہ شعر آج کے ہمالہ محترم مجید نظامی پر خُوب منطبق ہوتا ہے کہ ؎
’’تُجھ میںکچھ پَیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواںہے،گردشِ شام و سحر کے درمیاں‘‘
شیخ رشید احمد بہت رش لے رہے تھے لیکن مجھے حیرت ہُوئی کہ ہر روز کسی نہ کسی نیوز چینل پر گھن گرج کے ساتھ مخالفین کے لتّے لینے والے شیخ صاحب کو کیا ہو گیا کہ وہ اپنی ’’ہلکی پھُلکی موسیقی‘‘ کا مظاہرہ دھِیمے سُروں میں کیوں کر رہے ہیں؟ شایداِس لئے کہ اُن کے مخاطبین اُن کے مخالفین نہیں تھے۔ شیخ رشید احمد کہا کرتے ہیں کہ ’’مَیں شیخ ہوں، خسارے کا کام نہیں کرتا۔‘‘ اِس لحاظ سے جناب عمران خان کی دوستی سے تو شیخ صاحب کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن طاہر اُلقادری تو خود ’’شَیخ اُلاِسلام‘‘ ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ ’’کینیڈین شیخ اُلاسلام‘‘ کہیں ہمارے ،پاکستانی شیخ کی ساری عُمر کی سیاسی کمائی لُوٹ نہ لیں؟ مجلِس میں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور پاکستانیوں (بہاریوں) کے حوالے سے ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے بعد سیّد انور محمود اور اُن کی شاعرہ و ادیبہ اہلیہ بیگم نیّر محمود نے تحریکِ تکمیل پاکستان کے بانی صدر اور سابق (تاحیات) وفاقی وزیر جناب محمود علی ( مرحوم) اور آنجہانی راجا تری دیو رائے کا ذکر بھی انتہائی عِزّت و احترام سے لِیا۔ راجا تری دیو رائے نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ’’چکما قبیلے‘‘ کی سرداری چھوڑ کر پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا تھا اور وہ تاحیات وفاقی وزیر رہے۔ بہرحال سیّد انور محمود کی دعوتِ افطار و گُفتار ہر لحاظ سے خوشگوار تھی جِس میں ہر مہمان کے لئے "Food" اور "Food For Thought" کا انتظام کِیا گیا تھا۔ ہر مہمان ’’مہمان خصوصی‘‘ تھا اور اُسے یہی احساس دلایا گیا تھا کہ ؎
’’سجّنا ایہہ محفل اساں تیرے لئی سجائی اے !‘‘