متاثرہ بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ سرگرم نہیں: بی بی سی
بنوں (بی بی سی) بنوں سے چار کلومیٹر دور اینٹوں کے بھٹوں کے درمیان خالی میدان میں کئی بچے کھیل کود رہے ہیں لیکن نو سالہ زیب خان دور سے انہیں دیکھ رہا ہے۔ زیب خان کا بایاں بازو ٹوٹا ہوا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے اس کو آرام کرنے کے لیے کہا ہے مگر ایک کمرے میں 20 لوگ ہونے کی وجہ سے اس کو لیٹنے کی بھی جگہ دستیاب نہیں۔ زیب خان کا تعلق شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی کے ایپی گاؤں سے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج کی بمباری کے دوران وہ چوٹ لگنے سے زخمی ہوگیا تھا۔ اس کے مطابق دن کا وقت تھا، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے کہ اچانک جہازوں نے بمباری شروع کردی اور وہ دوڑا تو کسی چیز میں پاؤں پھنس گیا اور وہ منہ کے بل گرگیا جس وجہ سے اس کا بایاں بازو ٹوٹ گیا۔ زیب خان سمیت ہزاروں بچے پہلی بار اپنے علاقوں سے باہر آئے ہیں لیکن انہیں یہاں کوئی تفریح حاصل نہیں جبکہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بھی ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم نہیں جس کی وجہ سے گرمی اور دھوپ میں یہ بچے گھروں کے باہر کھیل کود کر وقت گزارتے ہیں۔ سپرا بی بی کھانسی اور بخار میں مبتلا اپنی ایک سالہ نواسی کے لیے پریشان نظر آتی ہیں جو طیاروں کی مبینہ شیلنگ کی وجہ سے زخمی ہوئی ہے۔ اس بچی کے چہرے پر زخم کے نشانات ہیں جو اس کی نانی کے مطابق شیلنگ کے ذرات لگنے سے ہوئے ہیں۔ بزرگ خاتون کا کہنا ہے کہ ان کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں جس کی وجہ سے ان کی رجسٹریشن نہیں کی گئی۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہے کہ کسی ڈاکٹر کے پاس جا کر بچی کا علاج کرائیں۔