• news

پاک فوج کے خلاف ایک اور سازش؟

جنرل اطہر عباس جب حاضر سروس تھے تو حاضر جناب تھے آئی ایس پی آر کی سربراہی ایک چائس پوسٹنگ ہے مگر اس بات کو ریٹائر ہونے والے آدمی کا ایک روٹین بیان نہیں سمجھنا چاہئے۔ جنرل اطہر نے سوچ سمجھ کر یہ بیان دیا ہے۔ یہ بیان دلوایا گیا ہے پاک فوج کو رسوا کرنے اور متنازعہ کرکے کمزور کرنے کی پالیسی اور سازش پرانی ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوجی مداخلت کے بعد پاک فوج کو پسپائی تو مل گئی تھی۔ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کے درمیان قومی رابطے کے فقدان کی وجہ سے پسپائی ہوئی تو پھر پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ سازش تھی۔ دونوں حصوں میں فاصلہ اور دشمن علاقے پر مشتمل حصہ ایک سازش تھی۔ مگر پاک فوج پھر بھی ساکھ بحال کروا کے سرخرو ہوئی۔ ایک سپر پاور کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کیا آئی ایس آئی اور مجاہدین کے تعاون سے تب افغانستان میں ایک بھی امریکی سپاہی نہ تھا۔ مخصوص میڈیا جیو نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کو ملزم بنا کے پیش کیا  اور یہ پروپیگنڈہ بیرونی ایجنڈا تھا۔ بھارت کی پاک فوج سے خوفزدگی تھی۔ پاک فوج کو متنازعہ کرنے کی سازش تھی۔ حکومت اب تک پاک فوج کے مبہم خوف میں مبتلا ہے۔ خوف اندر سے پھوٹتا ہے۔ سیاسی حکومتیں غور کریں کہ ان میں کمزوری اور منافقت کیا ہے؟
جنرل اطہر عباس بھی اسی سازش کا حصہ بنے ہیں۔ پاک فوج کے سابق سربراہ آرمی چیف جنرل کیانی پر اعتراض کے بہانے سے اس موقع پر جب آپریشن ضرب عضب چل رہا ہے فوج کو الجھانے اور بدنام اور ناکام کرنے کی سازش کا ایک نمونہ ہے۔ جب قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے جیسے جیو کے خلاف پاک فوج کے حق میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ کم ظرف کہتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب فوجی نہیں قومی آپریشن ہے۔ یہ بات ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ سپاہیوں کی طرف سے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدائیں جنرل اطہر نے نہیں سنیں؟ اس میں جنرل راحیل شریف بھی شریک ہوئے ہیں۔ وہ نشان حیدر پانے والوں کے جذبوں کے وارث ہیں اور جنرل کیانی سے مختلف ہیں۔ مصلحت اور منافقت سے پاک ہیں اور پاک فوج کے  اصل ترجمان ہیں۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن انہیں کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے کیا۔ جنرل کیانی نے سوات کا آپریشن کیا تھا اور دنیا والوں کو حیران کر دیا۔ امریکہ اور بھارت کو پریشان کر دیا۔ اب بھی یہ پریشانی جاری رہے گی اور ہماری حیرانی کی فراوانی بھی زندہ رہے گی۔ جنرل کیانی نے سوات کا کامیاب آپریشن کیا تو وہ شمالی وزیرستان کے لئے کیوں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے۔ اب یہ آپریشن سوات آپریشن کی ایکسٹنشن ہے۔ سوات کا بھگوڑا مولوی فضل اللہ تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ہے۔ اسے افغانستان میں چھپا کے اسی دن کے لئے رکھا گیا تھا۔ سوات کی طرح وہ یہاں بھی پسپا اور رسوا ہو گا۔ اب تو اس کے لئے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں مگر وہ افغانستان میں ہے اور امریکہ اور بھارت ’’اس افغانستان‘‘ پر قابض ہیں۔ اسے بھاگنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ افغانستان سے امریکہ کے جانے کے بعد بھارت اور مولوی فضل اللہ کا کیا بنے گا۔
یہ سپہ سالار اعلیٰ جانتا ہے کہ جنگ کس وقت کرنا ہے اور کس وقت تیاری کرنا ہے۔ پاک فوج والے تو جنگ نہیں کرتے جہاد کرتے ہیں۔ جنرل کیانی نے ہمیشہ نظریہ پاکستان کی بات کی جسے پاسبان نظریہ پاکستان مجاہد صحافت مجید نظامی نے بھی سراہا اور ان کے لئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ نہ آئے تو اب سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف تشریف لائیں۔ وہ بھی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ بھارت سے دوستی کے وہ خلاف نہیں مگر اس سے  پاکستان کے وقار کو مقدم جانتے ہیں اور سارے مسائل کا حل کشمیر سمیت چاہتے ہیں۔ نجانے کیوں میں جنرل راحیل شریف کو جنرل کیانی سے بہتر سپہ سالار سمجھتا ہوں۔
جنرل کیانی اندر سے سیاستدان تھے مگر وہ سیاستدان بھی نہ بن سکے۔ انہیں ایکسٹنشن قبول نہیں کرنا چاہئے تھی۔ حکومتیں تحفے اور رشوت کے طور پر عہدے اپنے عزیزوں اپنے دوستوں اور پیاروں کو دیتی ہیں۔ انگریزوں نے ایک آدمی کو بھی ایکسٹنشن نہ دی تھی انگریز ہمارے حکمرانوں سے کئی حوالوں سے بہتر تھے۔ وہ آقا تھے تو یہ بھی آقا ہیں بلکہ یہ مغل بادشاہ ہیں ظل سبحانی۔ کسی مدمقابل اور شریک کار کو برداشت نہیں کرتے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل کیانی تیسری بار بھی ایکسٹنشن لینا چاہتے تھے۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن سکتے ہیں تو جنرل کیانی آرمی چیف کیوں نہیں بن سکتے۔ انہوں نے اپنے دور میں سیاست سے فوج کو الگ کیا۔ وزیراعظم بننے سے پہلے ہی وہ نواز شریف کو مبارکباد دینے رائے ونڈ چلے آئے۔ وہ ’’صدر‘‘  زرداری کے سامنے مودب ہو کے بیٹھتے تھے۔ جنرل راحیل شریف خوددار آدمی ہیں۔ وہ وقار اور اعتبار کے ساتھ نواز شریف سے ملتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سیاستدانوں کو بلڈی سویلین سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے عہدے اور مرتبے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ پاک فوج کی عظمت کا احساس ہے۔ وہ سیاست کی اہمیت کا پاس رکھتے ہیں۔ انہوں نے وزیر شذیر اور دوسرے سیاستدانوں کو پاک فوج کی عزت کا احساس کروایا ہے۔
ایبٹ آباد کا واقعہ بھی جنرل کیانی کی شخصیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ وہ حسب معمول خاموش رہے۔ خاموشی اچھی ہوتی ہے مگر جہاں بولنا ضروری ہو وہاں خاموش رہنا ایک جرم ہے۔ جنرل کیانی یہی کہہ دیتے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ نہ تھا۔ یہ ڈرامہ ہے۔ امریکہ کا بار بار یہ اظہار بھی ہمارے لئے شرمندگی کا باعث تھا کہ حکومت اور فوج کو علم ہی نہ تھا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں ہے جبکہ واقعی اسامہ ایبٹ آباد میں نہ تھا کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوئی۔ اس کا اتہ پتہ اب تک نہیں چلا۔ حکومت نے بہت بزدلانہ رویہ اختیار کیا۔ صدر زرداری اور نااہل وزیراعظم گیلانی نے امریکہ کو مبارک دی جو ایک قومی جرم تھا۔ ایکسٹنشن کے بعد ریٹائرمنٹ کے لئے بھی بہت سرگوشیاں جنرل کیانی کے لئے گردش کرتی رہیں جو شرگوشیاں بھی بنتے بنتے رہ گئیں۔ جنرل اطہر کا بیان ایسی ہی شرگوشی ہے۔
شمالی وزیرستان میں امریکہ کے دبائو کے سامنے جنرل کیانی کی ثابت قدمی بہرحال قابل تعریف ہے۔ جنرل میں کئی ایسی باتیں تھیں جو  قابل تعریف ہیں۔ قابل اعتراض باتیں بھی بہت ہوں گی مگر جنرل اطہر عباس کا بیان احسان فراموشی اور اتنے بڑے اپنے ادارے کے لئے شرمندگی کا آئینہ ہے۔ آئین اور آئینہ میں فرق نہیں ہوتا۔ کچھ سیاستدان حکمرانوں کو بھی آئینہ دیکھنا چاہئے۔ وہ ڈرتے ہیں مگر آئینہ ٹوٹتا ہے تو اس کی ہر کرچی آئینہ بن جاتی ہے۔ کرچیاں آنکھوں میں بھی چبھ سکتی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل جنرل عاصم باجوہ کا کردار بہت مثبت ہے۔ جنرل اطہر کی جنرل کیانی کے خلاف ہرزہ سرائی افسوسناک بلکہ شرمناک اور خطرناک ہے۔ جنرل اطہر مشرف کے زمانے کی بھی نشانیاں دامن میں رکھتے ہیں۔ ایسے جرنیل اور سیاستدان جیب کو دامن سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ڈرون حملوں کے لئے جنرل اطہر کی طرف سے بیان آتا تھا جن میں اس کارروائی کو پاک فوج کی کامیابی سے تعبیر کیا جاتا تھا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ خواب تعبیروں سے بڑے اور پیارے ہوتے ہیں۔ سنا ہے کہ انہیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی نہ ملی تھی پھر وہ جنرل بننے کی تمنا کرتے اور مارشل لاء بھی لگاتے۔ اس میں بھی ان کی طرف سے سارا قصور جنرل کیانی کا ہے۔ اس میں ان کے صحافی بھائی کچھ نہ کر سکے اور نہ ان کی پروموشن پوسٹنگ کے لئے بہت سفارشیں موجود ہوتی تھیں۔ وہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میرٹ پر نہیں کسی اور حوالے سے بنائے گئے تھے۔ اب جنرل باجوہ ایک جینوئن آدمی ہیں انہوں نے اس ادارے کا وقار بحال کیا ہے۔ جنرل اطہر اصل میں جنرل مشرف کے آدمی ہیں انہیں شاید یہ بھی دکھ ہو کہ جنرل کیانی نے جنرل مشرف سے ملنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
کارگل کے لئے جنرل مشرف کو ایک کامیاب جرنیل نہیں سمجھا جاتا۔ جنرل کیانی نے اس حوالے سے نواز شریف کی حمایت کی مگر نواز شریف نے ہی کارگل واقعے کے بعد جنرل مشرف کو آرمی چیف کے علاوہ جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بھی بنایا تھا تو جنرل اطہر کو جنرل کیانی کے نواز شریف سے روابط پر کیا اعتراض ہے۔ انہیں اب اس معاملے کو طول نہیں دینا چاہئے۔ جنرل اطہر عباس یہ بتائیں کہ ان کے اس غیر ضروری اور غیر فوجی بیان سے آرمی چیفس کے درمیان موازنہ کیوں شروع ہو گیا ہے؟ جنرل راحیل شریف کو سلام۔ وہ صحیح معنوں میں ایک سپہ سالار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ کیا جنرل کیانی کے حوالے سے جنرل اطہر عباس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن صرف جنرل راحیل کا فیصلہ ہے۔ اس سے ان کا مقصد کیا ہے؟

ای پیپر-دی نیشن