• news

سانحہ لاہور: نواز‘ شہباز شریف‘ رانا ثنا اور دیگر پر مقدمہ کی درخواست‘ 8 جولائی کو پولیس سے کمنٹس طلب

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، حمزہ شہبازشریف، رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چودھری نثار علی خاں کیخلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرانے کیلئے ایک اور درخواست دائر کر دی گئی۔ ایڈیشنل سیشن جج صفدر بھٹی نے دائر درخواست پر ایس ایچ او فیصل ٹاؤن سے 8 جولائی کو کمنٹس طلب کرلئے ہیں۔ درخواست منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن جواد حامد کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سائل 16 اور 17 جون کی درمیانی شب طیب ضیا نورانی کے ساتھ 365-M ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں موجود تھا کہ اچانک باہر شور ہونے لگا۔ سائل اسکی وجہ معلوم کرنے کیلئے نکلا تو باہر پولیس کی بھاری نفری ڈی آئی جی (آپریشنز) رانا عبدالجبار کی قیادت میں سیکرٹریٹ کے باہر لگی رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف تھی۔ اس موقع پر ایس پی ہیڈ کوارٹر، ایس پی سکیورٹی، ایس ایچ او کاہنہ اور ایس ایچ او نشتر ٹاؤن وغیرہ بھی موجود تھے۔ سائل نے جب پولیس کو بتایا کہ مذکورہ رکاوٹیں چار سال قبل عدلیہ اور پولیس کی ہدایت پر کھڑی کی گئی تھیں تو اسے جوابدیا گیا کہ یہ سارا آپریشن رانا ثناء اللہ کے حکم پر کیا جا رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ طاہر القادری کے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا جائے چاہے اس کیلئے خون ہی کیوں نہ بہانا پڑے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ توڑپھوڑ کا شور سن کر وہاں لوگ اکٹھا ہونا شروع ہوئے تو پولیس نے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ پولیس کے ساتھ آئے ہوئے بلڈوزروں کا رخ سیکرٹریٹ کے رہائشی حصے کی جانب ہوا تو بہت سی خواتین ڈھال بن کر آگے آگئیں۔ اس موقع پر ڈی آئی جی آپریشنز نے پولیس کو حکم دیا کہ میں تین تک گنتا ہوں اگر خواتین سامنے سے نہ ہٹیں تو ان پر گولیاں چلا دی جائیں۔ یہ کہہ کر ڈی آئی جی آپریشنز نے گنتی گننا شروع کردی۔ اس کے تین تک پہنچتے ہی پولیس نے سیدھی فائرنگ شروع کردی، اس دوران ایک گولی تنزیلہ احمد کے چہرے پر لگی جبکہ وہاں موجود پولیس افسر طارق عزیز کے ہمراہی ایک اہلکار نے شازیہ مرتضٰی کی گردن پر گولی مار دی۔ بعدازاں دونوں خواتین جان کی بازی ہار گئیں۔ اس دوران صفدر حسین، عمر، اقبال، عاصم حسین، غلام رسول سمیت 14 افراد بھی گولیوں کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آپریشن کے دوران پولیس نے سیکرٹریٹ کے استقبالیہ پر بیٹھے عبدالمنان وارثی کو بھی زدوکوب کیا اور کارکنوں سے لائسنسی اسلحہ چھین لیا۔ پولیس نے نہ صرف گوشہ درود کی حرمت پامال کرتے ہوئے اس پر گولیاں برسائیں بلکہ وہاں سے قیمتی سامان بھی لوٹ لیا۔ اس سارے عمل کے دوران پولیس اور حکمرانوں کا چہیتا گلو بٹ سیکرٹریٹ کے سٹاف اور مہمانوں کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرتا رہا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس پولیس گردی کا مقصد صرف اور صرف طاہر القادری کو ان کے 10 نکاتی ایجنڈے پر عمل سے روکنا تھا کہ کیونکہ انہوں نے 23 جون کو پاکستان واپس آکر اپنے انقلابی ایجنڈے پر عملدرآمد کی کال دے رکھی تھی۔ پولیس کے اس سارے عمل کو میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، حمزہ شہبازشریف، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چودھری نثار علی خاں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ گلو بٹ بھی اس واقعہ میں مرکزی ملزم ہے، متعلقہ پولیس کو اندراج مقدمہ کی درخواست جمع کروائی گئی جس پر عمل نہیں کیا گیا لہٰذا عدالت دہشت گردی، قتل اور توڑ پھوڑ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کرے۔

ای پیپر-دی نیشن