• news

مثبت تبدیلی نہ لانے والی جمہوریت نہیں چل سکتی: جسٹس تصدق‘ ادارے آئین پر نہ چلیںتو عدالت کو مداخلت کا اختیار ہے: جسٹس ناصر الملک

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ عدلیہ نے ملکی چیلنج کے پیش نظر خود کو ایک ستون کے طور پر متحرک کیا ہے۔ گزشتہ برسوں کے چیلنجوں نے عدلیہ کو ریاست کا فعال ستون بنا دیا ہے۔ آئین کی بالادستی اس وقت ممکن ہے جب عدلیہ کو کام کرنے دیا جائے۔ سپریم کورٹ اب محض ایک آئینی ادارہ نہیں اس کا یہ فرض ہے کہ انتظامیہ اور مقننہ کے اقدامات پر نظر رکھے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ ریاستی ادارے آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو عدالت مداخلت کا اختیار رکھتی ہے، مقدمات کے التوا کا کلچر ختم کرنا اور عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالتی نظام کو ہر شخص کی پہنچ تک ممکن بنانا ہوگا، آئین میں ریاستی ستونوں کے اختیارات واضح ہیں، ایگزیکٹو اور قانون سازوں کے غیر آئینی اقدامات کا جوڈیشل ریویو ہو سکتا ہے، جسٹس تصدق حسین جیلانی کی آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی پاسداری کے لئے اگر ریاستی ادارے آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو عدالت کو مداخلت کا اختیار ہے، آئین صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ قوم کی اجتماعی سوچ اور خواہشات کا عکاس ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہاکہ گڈگورننس قانون پر عمل سے ممکن ہے، اداروں کو ایک دوسرے کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ اگر ریاستی ادارے ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے تو ڈر ہے کہ عوامی حقوق متاثر ہوں گے جبکہ عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے عدلیہ کا فعال کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ جسٹس تصدق جیلانی ہمیشہ ناانصافی کے خلاف نبرد آزما ہوئے، ان کے فیصلے بنچ اور بار کیلئے روشنی کی مانند ہیں۔ اس موقع پر سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ آئین کی بالادستی اس وقت ممکن ہے جب عدالت کو کام کرنے دیا جائے۔ عدلیہ پر قدغن لگانے کے دن بھی دیکھے اور بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ میں چیلنجنگ اور ڈرامائی اتار چڑھاؤ دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ، بلدیاتی انتخابات اور حلقہ بندیوں کے قانون میں سقم دور کرنا سپریم کورٹ کے اہم اقدامات ہیں۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہاکہ آئین پاکستان دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کی بھی عزت کرتا ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے از خود نوٹس لینا شروع کئے اور اسی وجہ سے اوورسیز پاکستانیز سیل قائم کیا جہاں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی داد رسی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ نے ملکی چیلنج کے پیش نظر خود کو ایک ستون کے طور پر متحرک کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آزاد عدلیہ کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں جو کچھ ہوسکا عام لوگوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے کیا۔ فل کورٹ ریفرنس میں ججز صاحبان‘ سینئر وکلاء اور دیگر افراد نے شرکت کی۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ دوہری شہریت قانون میں منع نہیں ہے مگر دوہری شہریت کا حامل شخص الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ بیرون ملک شہری بھی پاکستانی اور محب وطن ہیں ان کو ان کے حقوق ضرور ملنے چاہئیں۔ ملک میں جمہوری کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جسٹس تصدق جیلانی نے مزید کہا کہ ایسی جمہوریت نہیں چل سکتی جس سے لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی نہ آئے۔  اب آئین سے انحراف کے راستے بند ہونے کے ساتھ قانون کی حکمرانی کے سماجی پہلو نے معاشرے میں جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق کے حوالے سے آگہی پیدا کر دی ہے، آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے گذشتہ برسوں کے چیلنجوں نے عدلیہ کو مزید تقویت پہنچاتے ہوئے اسے ریاست کا ایک فعال ستون بنا دیا ہے جس سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ سپریم کورٹ اب صرف ایک آئینی ادارہ نہیں اس کا یہ بھی فرض ہے کہ اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے انتظامیہ اور مقننہ کے اقدامات پر نظر رکھے کیونکہ آئین کی بالادستی اسی وقت ہی ممکن ہے جب عدالتوں کو کام کرنے دیا جائے۔ قانون کی حکمرانی کا احترام کیا جائے اور قانونی ادارے مضبوط اور فعال ہوں۔ سپریم کورٹ اختیارات کی تقسیم کے فارمولے پر یقین رکھتی ہے اور ریاست کے دیگر اداروں کا احترام کرتے ہوئے اپنا کردار اخلاص اور جذبے کے ساتھ ادا کر رہی ہے اور قانون اور سماجی پہلو کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ پاکستان جیسے پیچیدہ ملک میں یہ کافی نہیں کہ سپریم کورٹ مخص قانون کا نفاذ یقینی بنائے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ آئینی اقدار کو درپیش چیلنجوں کے سامنے حوصلے کے ساتھ مناسب اقدامات اٹھا کر ان پر قابو بھی پائے۔ انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے سپریم کورٹ کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کئے مختلف کیسوں میں ازخود نوٹس لے کر اس حوالے سے تاریخی فیصلے کئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے اقدامات سے سپریم کورٹ عام ادارے سے بنیادی حقوق کے تشخص کے ادارہ کے طور پر سامنے آئی ہے جس کی وجہ سے اس پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ آج دنیا کی اکثر جمہوریتوں میں یہ رجحان فروغ پا رہا ہے کہ عدلیہ نے بہتر عوامی سوچ اپناتے ہوئے اپنے دائرہ اختیار کو توسیع دی ہے مجھے یقین ہے کہ عدلیہ آئندہ بھی اسی جذبے کے ساتھ اپنا کام کرتی رہے گی۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ تصدق حسین جیلانی کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ علاوہ ازیںفل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان سلمان بٹ، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین رمضان چودھری، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی اور بالادستی سے ہی جمہوریت مضبوط ہوگی، ریاست کے تینوں اداروں عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے مستحکم پاکستان کے لئے کام کرنا ہے حدود سے تجاوز سے اداروں میں ہونے والا تصادم کسی کے مفاد میں نہیں عوام کو انسانی حقوق اور انصاف کی فراہمی کے لئے سٹیٹ کے تینوں آرگنز مل کر کام کریں، اختیارات کے درست استعمال، توازن، آئین پر عملدرآمد سے ہی خوشحال اور مضبوط پاکستان قائم ہوسکتا ہے، ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان ملک کا سرمایہ ہیں جن کے تجربات سے بھرپور فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ متعلقہ ادارہ ہے جو اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کر رہا ہے۔ رمضان چودھری نے کہا کہ عدالتوں میں ابھی تک ججز کی شدید کمی ہے، جوڈیشل کمیشن میں جج کو منتخب کرنے کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہئے کسی کو پسند نہ پسند کی بنیاد پر نہیں لگایا جانا چاہئے۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 91 فیصد ہے جو کہ گنجائش سے 55فیصد زائد ہے جبکہ 70فیصد قیدیوں کا ٹرائل ہی نہیں ہورہا ہے، ملک بھر میں زیر التواء مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہائی کورٹس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماتحت عدلیہ کے ساتھ مل کر زیر التواء مقدمات کے خاتمے کے لئے کوشش کریں۔

ای پیپر-دی نیشن