سستا آٹا : وفاق اور صوبوں کو آج واضح لائحہ عمل دینے کی ہدایت‘ غریب کو بھوک سے مرتا نہیں دیکھ سکتے : جسٹس جواد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں)سپریم کورٹ نے آٹے کی قیمتوں کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران واضح کیا ہے کہ ملک بھر میں غریبوں کو سستے داموں آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے اقدامات مکمل کرنے کے لئے ٹائم لائن ہر صورت دینا ہو گی اور صوبائی سیکرٹری خوراک کو یہ حلف دینا ہو گا کہ جو بھی حکمت عملی اپنائی گئی اس پر عمل درآمد کیا جائے گا اگر اس حلف کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کے اثرات کا سب کو علم ہونا چاہئے۔ عدالت نے ٹائم لائن دینے کے لئے آج تک کی مہلت دیتے ہوئے وفاقی سیکرٹری فوڈ سکیورٹی کو صوبوں کی مشاورت سے لائحہ عمل وضع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے صوبوں کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ درخواست گزار لیاقت بلوچ کی جماعت کو بھی اس کیس کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا سنا ہے یہ جماعت ملک بھر میں منظم ہے۔ دوران سماعت حکومت پنجاب نے عدالت کو بتایا ہے کہ صوبے میں آٹے کا تھیلا 310 روپے جبکہ سندھ نے بتایا ہے کہ پورے صوبے میں 36 روپے فی کلو آٹا فروخت کیا جا رہا ہے تاہم صوبوں نے غریبوں کو آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ٹائم فریم دینے سے معذوری ظاہر کی ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو آٹے کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جا سکتی تو آئین کے آرٹیکل 9 میں ترمیم کر دی جائے آئین میں دیئے گئے حقوق سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔ اگر بندہ مر جائے گا تو اس کو سکول جانے کی ضرورت نہیں پہلے شہریوں کو خوراک کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی لوگوں سے کھیلا جانے والا کھیل بند ہونا چاہئے۔ سبسڈی کی رقم سب سے پہلے لوگوں کو گندم کی فراہم پر خرچ ہونی چاہئے۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہمیں کمیٹیوں سے واسطہ نہیں ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپی کے زاہد یوسف قریشی نے اپنی رپورٹ جمع کرائی انہوں نے بتایا صوبائی حکومت نے ٹارگٹڈ سبسڈی 5 ارب سے بڑھا کر 6.86 ارب روپے کر دی ہے اور اس پر عملدرآمد کے لئے کمیٹی قائم کر دی ہے۔ جسٹس جواد کے استفسار پر بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا کی آبادی 26 ملین ہے جس میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ خاندان سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو کل آبادی کا 20% ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عوام کو ڈیلیوری کا سسٹم کامیاب ہو جائے گا جسٹس جواد نے کہا کہ یوٹیلیٹی سٹورز تو تمام لوگوں کے لئے کھلے ہیں یہ 2 کروڑ 60 لاکھ لوگوں کو کیسے ڈیل کریں گے۔ غریب شہری وائوچر لے کر کہاں جائے گا ۔ لگتا ہے کہ یہ نظام بھی کامیاب نہیں ہو گا۔ 51 لاکھ لوگ جائیں یوٹیلیٹی سٹورز پر اس کی کیسے شناخت ہو گی کہ یہ وہی شخص ہے جس کو وائوچر ملا ہوا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ کوئی قابل اعتماد نظام نہیں لگتا۔ آپ نے ٹارگٹ کرنا ہے اگر درست طریقہ سے شناخت ہو جاتی ہے تو ٹھیک ہے تاہم ترسیل کا نظام درت نہیں ہے۔ لوگوں کی قوت خرید کے حوالے سے بھی تو اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے حکام کو بلایا جائے۔ ہم سارے ان اقدامات کے ذمہ دار ہیں۔ ہمیں حضرت عمر ؓ کا قول یاد رکھنا چاہئے کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے کتا بھی مرے گا تو وہ ذمہ دار ہوں گے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل حنیف کھٹانہ نے کہاکہ صوبائی حکومت نے اکتوبر سے قبل خوراک تعلیم اور صحت کے بارے میں پروگرام بنایا ہے۔ وزارت خزانہ نے کہا کہ ٹارگٹڈ سبسڈی کے لئے کوئی وسائل نہیں ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر آئین کے آرٹیکل 9 میں ترمیم کر دی جائے ۔ آئین میں دیئے گئے حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ بندہ اگر مر جائے گا تو اس کو سکول جانے کی ضرورت نہیں رہے گی اگر غریب ختم ہو جائے گا تو دیگر سہولیات کی ضرورت نہیں رہے گی صوبے ایک کروڑ 90 لاکھ لوگ ایسے ہیں جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جسٹس جواد نے سیکرٹری خوراک سندھ سے استفسار کیا کہ کیا سندھ بھی خوراک میں خودکفیل ہے تو انہوں نے کہاکہ سندھ خسارے میںہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ یہ مملکت خدادادہے جس میں بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں ۔ اس موقع پر وفاقی سیکرٹری فوڈ سیکورٹی سیرت اصغر نے کہا کہ اگر پنجاب جیسا نظام تمام صوبوں میں نافذ کر دیا جائے تو وفاق مالی معاونت کرے گا جسٹس جواد نے کہا کی کیا ملک میں ایسا ممکن ہے کہ کوئی بھی غریب بھوکا نہ رہے ۔قوانین کہتے ہیں کہ وفاق خوراک کی فراہمی کی مانیٹرنگ کرے گا یہ کیسے ہو گی کیا اب مانیٹرنگ ہو رہی ہے ۔ سیکرٹری فوڈ کا کہنا تھا کہ مانیٹرنگ تو صوبوں کے تعاون سے ممکن ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہر شہری کو خوراک کی مطلوبہ مقدار مل رہی ہے ۔ آئی این پی کے مطابق جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا کہ پاکستان کے خوراک میں خود کفیل ہونے کے باوجود آج لوگ بھوک سے مررہے ہیں‘قانون ،اتھارٹیاں اور کمیٹیاں بنا دینے سے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرتا‘حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات کرے، سپریم کورٹ غریبوں کو بھوک سے مرتا ہوا کسی صورت برداشت نہیںکرے گی ۔
آٹا کیس