پاکستان میں ہندوآنہ رسم و رواج کی کوئی گنجائش نہیں: ہائیکورٹ
لاہور(وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ علیحدگی اپنانے والے جوڑے ایک دوسرے کے خلاف بچوں کے ذہنوں میں زہر اگل رہے ہیں۔ بچوں کے ذہنوں کو انکے والدین کے پراپیگنڈے سے دور رکھنا گارڈین عدالتوں کی ذمہ داری ہے مگر بدقسمتی سے وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہیں۔ اسلامی اور ملکی قوانین کے تحت بچوں کو کسی صورت انکی ولدیت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس بچی حوالگی کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ درخواست گزار محمد امتیاز نے کہا کہ اسکی سابقہ بیوی اسکی بیٹی کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں دے رہی لہذا عدالت بچی کو ماں سے لے کر اسکے حوالے کرنے کا حکم دے۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو انکی ولدیت سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان سے والدین کی شناخت چھپائی جا سکتی ہے پاکستان میں ہندوانہ رسم و رواج کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ علیحدگی اختیار کرنے والے میاں بیوی بچوں کے سامنے ایک دوسرے کی کردار کشی کریں یا شناخت چھپائیں تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے بچی حوالگی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے والد سے اسکی بچی کی ملاقات کرانے کا حکم دے دیا۔
ہائیکورٹ/ ہندوانہ رسم