تعلیم و تعلم کی حوصلہ شکنی کیوں؟
مکرمی! جنوبی پنجاب سے ملحقہ ”لیہ“ کی اہم شخصیت جو کہ عرصہ دراز سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور رات دن محنت مشقت کر کے اپنے علاقے میں نئی نسل کو زیور تعلیم سے روشناس کرانے کےلئے ایک خوبصورت تعلیمی ادارہ قائم کیا اس ادارے کی کارکردگی کو نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بیرون ممالک میں بھی سراہا گیا اور اس کو خصوصی ایوارڈ بھی دیا گیا اس ادارے کے چیئرمین نے جی سی یونیورسٹی سے اس کا الحاق کر دیا اور اب گزشتہ چند برسوں سے اس تعلیمی ادارے کو جی سی یونیورسٹی لیہ کیمپس کا مقام حاصل ہے اس ادارے میں بہت بڑی تعداد میں طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نصف سے زائد طلبہ بالکل مفت یعنی بلامعاوضہ تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ بہت سے طلبہ بھی رعائیتی فیس ادا کرتے ہیں اور اس رقم سے یوٹلیٹی بلز کی ادائیگی بھی مشکل ہوتی ہے اس ادارے کو حکومت یا کسی بھی شخصیت سے کبھی بھی کسی قسم کی کوئی گرانٹ وغیرہ نہیں ملتی اس ادارے کے تمام اخراجات اور طلبہ کے وظائف اور اساتذہ کی تنخواہیں سمیت تمام اخراجات اسی تعلیمی ادارے اپنے بزنس سے حاصل ہونیوالی آمدن سے چلاتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ اس شخصیت کی طرف سے لیہ میں ہر سال پہلی پوزیشن حاصل کرنیوالے میڈیکل کے طلبہ کو میڈیکل کالج میں داخلہ اور اسکے تمام تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کا اہتمام بھی کرتے ہیں اس تعلیمی ادارے سے وابستہ اساتذہ کرام کو پرکشش مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ اس ادارے کے چیئرمین غلام عباس بھٹی کو بیرونی ممالک سے آنیوالے تمام وفود نے انہیں سر سید کے خطاب سے نواز رکھا ہے جب کہ ہمارے اعلی سرکاری افسران کی جانب سے ان کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے انہیں پریشان کرنے اور ان سے بھتہ وصول کرتے ہیں جو کہ قابل مذمت ہے اور اب ان کو مزید مطالبات پورا نہ کرنے پر جی سی یونیورسٹی سے الحاق کو ختم کروانے اور اس کو بند کرنے کی دھمکیوں سے نوازا جا رہا ہے جس سے لیہ کے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ آئی ہے ۔(بی اے شیخ، پی آر او برائے چیئرمین جی سی یونیورسٹی، لیہ)