زخم ِ سفر!
قیام پاکستان کے بعد سازشوں کے سنہری جال بُنے گئے۔ ایک ایسے شخص کو گورنر جنرل بنایا گیا جس کو بیماری کی وجہ سے اپنے اعضاءپرکوئی کنٹرول نہ تھا۔ وہ ایک کرب انگیز کیفیت میں زیست کی آخری منازل طے کر رہا تھا منہ سے رال بہنا شروع ہوتی تو رکنے کا نام تک نہ لیتی اور سلطنت تو کیا چلانا تھے‘ اس کا محبوب مشغلہ برہنہ گفتاری تھا۔ لغت میں کوئی ایسی دشنام نہیں ہے جو اسے ازبر نہ تھی۔ چونکہ رواداری کا قائل تھا اس لئے سب بڑے چھوٹے ان کی رو میں رہتے ۔ ایک مرتبہ سکندر مرزا‘ ایوب خان اور چند دیگر ان سے ملنے گئے تو اس نے سب کو بے لفظ سنائیں اور سب کو بھاگنے میں ہی عافیت نظرآئی۔ ایوب خان اپنی کتاب Friends Not Masters میں لکھتا ہے۔ "He Was Emittting A Volley of A Buses" .... بالآخر اس سازشی ٹولے نے غلام محمد سے چھٹکارا حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انکار پر پستول اس کی کنپٹی پر رکھا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ چند دن کا مہمان ہے‘ انتظار گوارا نہ کیا گیا۔ غلام محمد کے متعلق بہت کم لوگوں کو علم ہے وہ لاہور کی ککے زئی برادری سے تعلق رکھتا تھا اور تقسیم سے قبل انڈین اکاﺅنٹ سروس میں تھا۔ لیاقت علی خان نے متحدہ ہندوستان میں وزیرخزانہ بن کر جس طرح وزیرداخلہ سردار پٹیل کو زچ کیا اس کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ تھا۔ اگر بیماری کے ہاتھوں بے بس نہ ہو جاتا تو مزید نئے گل کھلاتا۔ حسین شہید سہروردی حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ وہ ممتاز قانون دان اور ثقہ سیاسی سیاسی لیڈر تھا۔ ایک دن غلام محمد نے اسے بلایا اور تین آفرز ایک ہی سانس میں کر ڈالیں۔ بولا سہروردی! تم حکومت کیلئے درد سر بنتے جا رہے ہو۔ میں تمہیں تین Choices دے رہا ہوں۔ تمہیں آج اور اسی وقت فیصلہ کرکے اٹھنا ہے۔ وزارت‘ سفارت یا جیل! قیاس کن زگلستان من بہارا! .... قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح عمری میں بہت کچھ لکھا ہے۔ کچھ بوجہ نہیں لکھ پائے۔ وہ اسکے سیکرٹری تھے جس طرح غلام محمد نے انکی تذلیل کی اس کا برملا ذکر کیا۔ جو بات شہاب صاحب نے نہیں لکھی وہ یہ تھی کہ غلام محمد ان سے ناراض تھا اور انہیں سبق سکھانے کیلئے اپنا سیکرٹری تعینات کروایا تھا۔ شہاب صاحب جب ڈی سی جھنگ تھا تو غلام محمد نے کسی شخص کا کام کرنے کو کہا۔ وہ نہ کر سکے۔ اسی ”جرم“ کی پاداش میں تذلیل اور تحقیر کا نشانہ بنے۔ اس سلسلے میں چند ناگفتنی باتیں بھی ہیں جن کا ذکرمناسب نہ ہوگا۔البتہ ایک بات کی سمجھ نہیں آتی۔ سول سروس والے ان دنوں فرعون بنے ہوئے تھے۔ سکندر مرزا ایک ایسا کریلا تھا جو نیم چڑھ گیا۔ ایک فوجی جب سول سروس میں آتا ہے تو دوآتشہ ہو جاتا ہے۔ جتنا عرصہ وہ گورنر جنرل رہا‘ اسکی ایک ہی خواہش رہی اپنے اقتدار کو کیسے طوالت بخشی جائے۔ وزرائے اعظم کی کوئی اہمیت اور دہشت نہ تھی۔ خواجہ ناظم الدین‘ چودھری محمد علی‘ ملک فیروز خان نون تاش کے پتوں کی طرح تھے ۔جب سکندر مرزا نے دیکھا کہ پانی سر پر پہنچ گیا ہے تو اس نے مارشل لاءلگا دیا.... کچھ دیر بعد ہی اسے احساس ہو گیا کہ ایوب انکی صورت میں اس نے ایک Rranke Nstein Monster کھڑا کر دیا ہے۔ چنانچہ اس نے ایئرفورس کے عبدالرب کے ذریعے ایوب خان کو ہٹانے کی بچگانہ کوشش کی‘ لیکن سب تدبیریں الٹی ہو گئیں۔ جرنیلوں نے تھپڑوں اور ٹھڈوں کے ساتھ اسے لندن کیلئے رخصت کیا۔ایوب خان ایک فوجی آمر تھا‘ لیکن تعمیری ذہن رکھتا تھا۔ اس نے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کی شعوری کوشش کی۔ کارخانوں کا جال بچھ گیا۔ میرٹ کو فوقیت دی۔ اگر گندھارا انڈسٹری والے واقعے کو نکال دیں تو کرپشن کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ سول سروس والے بڑے کائیاں ہوتے ہیں۔ ایک ”گوہر یکتا“ نے انکے کان میں ڈال دیا کہ وہ بڑے مقبول لیڈر ہیں۔ وردی کے بغیر بھی اقتدار کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔ چودھری محمد علی کا آئین توڑ کر اپنا آئین دیا۔ بنیادی جمہوریتوں کی بنا پر صدارتی الیکشن کروا دیا۔ انکا خیال تھا کہ جز نوابزادہ نصراللہ خان کوئی بھی بروئے کار نہیں آئیگا‘ لیکن وہ شاعر سیاستدان بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا۔ اس نے ایک ایسی شخصیت مقابلے میں لاکھڑی کی جس سے فوجی آمر کے ہوش اڑ گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح.... یوں محسوس ہوتا تھا کہ سارے ملک میں ایک بجلی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لوگ جوق در جوق جلسوں میں آنے لگے۔ جس مشیر پر وہ گرجے برسے تھے‘ اس نے ایک اور نایاب مشورہ دے ڈالا۔ ”جھرلو بابا“ کی خدمات حاصل کریں۔ پھر الیکشن کے دن لگتا تھا کہ پاکستان کی بیورو کریسی ایک ہی کام پر مامور ہے۔ جعلی ووٹ بھگتانا ایوب خان جیت کر بھی ہار گیا۔ غالباً احساس جرم نے دل کو براہ راست متاثر کیا۔ ہارٹ اٹیک کو یحییٰ خان نے نیک شکون جانا۔ ملک میں مظاہرے ہوئے اور ہر طرف کتا کتا کی صدائیں بلند ہوئیں۔ سول سروس والوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ یہ تکلیف دہ صدائیں ان تک نہ پہنچ سکیں‘ لیکن جب ایک دن اسکے پانچ سالہ پوتے نے اسے دیکھتے ہی ایوب کتا ہائے ہائے کہا تو اس پر تمام تر تلخ حقیقتیں روز روشن کی طرح عیاں ہو گئیں‘ اسے احساس ہوا کہ کتا نہ صرف بوڑھا ہو چکا ہے بلکہ بیمار بھی ہے۔ اپنے ہی بتائے ہوئے قانون کو توڑتے ہوئے اس نے اختیار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔