• news

سانحہ لاہور: ٹربیونل نے وزیراعلیٰ‘ رانا ثنائ‘ پولیس اور انتظامی افسروں کے موبائل فونز کا ریکارڈ طلب کر لیا

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل تحقیقاتی ٹربیونل نے سانحہ لاہور ایک روز قبل اور سانحہ کے دن میں وزیراعلیٰ شہباز شریف، اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ، سیکرٹری داخلہ پنجاب،کمشنر لاہور، اس وقت کے سی سی پی او، ڈی سی او لاہور، اس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار اور موقع پر موجود 9ایس پیز کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو اور احکامات کے تبادلے کی تفصیلات اور ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ فاضل ٹربیونل نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کو ریکارڈ جبکہ آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کو سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے رپورٹیں 14جولائی کو پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ ٹربیونل نے آئی جی سے ماڈل ٹائون آپریشن کے دوران موجود تمام پولیس افسروں اور اہلکاروں کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ ایڈیشنل آئی جی نے عبوری رپورٹ پیش کی۔ ٹریبونل کی طرف سے آپریشن میں حصہ لینے والے افسروں اور اہلکاروںکو نوٹس جاری کرنے  سے متعلق استفسار پر ایڈیشنل آئی جی نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اور اس بارے جواب کیلئے مہلت کی استدعا کی۔ اپنی رپورٹ پیش کرنے کے بعد اے آئی جی بیشتر وقت کمرہ عدالت میں سوئے رہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل حنیف کھٹانہ نے ٹربیونل کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالہ سے جے آئی ٹی کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر طلب کرنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ تفتیش کے معاملہ میں عدالت یا ٹربیونل مداخلت نہیں کر سکتا۔ فاضل ٹربیونل  نے اس اعتراض پر کہا کہ ٹربیونل تفتیش کی نگرانی کر رہا ہے نہ ہی مداخلت کی جارہی ہے ٹربیونل صرف پراگریس چیک کر رہا ہے جو اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔ کیا آپ محسوس کر رہے ہیں کہ ٹریبونل مداخلت کر رہا ہے۔ اس پر کوئی جواب نہ آنے پر ٹریبونل نے کہا کہ آپ اپنا کام کریں ٹربیونل کو اپنا کام کرنے دیں۔ ایک عینی شاہد کے وکیل آفتاب باجوہ نے ٹربیونل کو بتایا کہ حکومت غلط بیانی کرتی ہے اور اصل حقائق چھپائے جا رہے ہیں زخمیوں کے اعدادوشمار بھی درست نہیں ہمارے پاس زخمیوں کی فہرستیں موجود ہیں جو حکومت کے  اعدادوشمار سے زیادہ ہیں۔ ہم ان کو ٹربیونل کے روبرو پیش کریں گے۔ موجودہ حکومت 14افراد کو قتل اور سو سے زیادہ افراد کو زخمی کرنے کی ذمہ دار ہے ٹربیونل اس واقعہ کی دوسری ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے۔ ٹربیونل نے کہا کہ ٹربیونل صرف فیکٹ فائنڈنگ تک محدود ہے دوسری ایف آئی آر کے کے لئے جسٹس آف پیس سے رجوع کیا جائے۔ آفتاب باجوہ نے کہا کہ ٹربیونل کو اختیار حاصل ہے کہ وہ مقدمہ درج کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ وزیر اعلی اور سابق وزیر قانون ذمہ دار ہیں۔ ٹربیونل ان کے خلاف مقدمہ درج کرائے۔ قانون کے تحت گواہوں کو ہراساں کرنے والے کو ٹربیونل نظربند کر سکتا ہے۔ اگر ٹربیونل وزیر اعلی یا کسی دوسرے حکومتی یا پولیس عہدیدار کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کر سکتا تو ان کو نظر بند کرنے کا حکم دے کیونکہ حکومت گواہوں کہ ڈرا دھمکا رہی ہے۔ سول سوسائٹی کے نمائندہ عبداللہ ملک نے ٹربیونل کو تجاویز دیں کہ ٹربیونل اس معاملہ کا جائزہ لے کہ جب پولیس یہ کہتی ہے کے دوطرفہ فائرنگ ہوئی تو ایک بھی پولیس اہلکار زخمی کیوں نہیں ہوا اگر پولیس پر پٹرول بم پھینکے گئے تو کوئی جلا کیوں نہیں۔ ٹربیونل سولہ اور سترہ جون کو رانا ثناء اللہ کی صدارت میں اجلاسوں کا ریکارڈ بھی طلب کرے۔

ای پیپر-دی نیشن