• news

تھاپر کو اپنے ” تھپڑوں“ کاجواب نہیں ملا

سات سال پہلے بھارت کے شہر احمد آباد میں گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرا مودی سے ایک ٹی وی چینل کا نمائندہ انٹرویو کرنے کیلئے اُنکے دفتر میں پہنچا تو وزیراعلیٰ نے اس کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ انٹرویو شروع ہوا تو ٹی وی اینکر نے اپنے خاص انداز اور لہجے میں چھوٹتے ہی مشکل سوالات داغنے شروع کردیے۔
سوالات 2002ءمیں گجرات فسادات سے متعلق تھے، جس میں نریندرا مودی سے متعلق بھارتی عدالت کے ریمارکس کا تذکرہ بھی تھا۔ اینکر نے اپنے انٹرویو کے آغاز میں اُنہی عدالتی ریمارکس کو دہرایا ”کیا آپ کو گجرات فسادات میں مارے جانے والے مسلمانوں کا دکھ ہے؟ کیا آپ مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کرنا پسند کرینگے؟کیا آپ گجرات کے قصاب ہونے سے انکار کرینگے؟“
سوالات کافی سخت ثابت ہوئے، کیونکہ ان سوالات کے دہرانے کے ٹھیک ایک منٹ بعد یہ انٹرویو ختم ہوگیا، حالانکہ یہ انٹرویو بھارتی ٹی وی چینل سی این این آئی بی این کے ایک گھنٹے کے پروگرام ”ڈیولز ایڈووکیٹ“ کیلئے ریکارڈ کیا جارہا تھا۔ مودی نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے گلاس کا پانی ایک ہی سانس میں اندر انڈیل لیا”تم میرے دوست ہو! مجھے ایک دوست سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ سوالات کی آڑ میں تھپڑ مارے گا، تم یہاں آئے مجھے خوشی ہوئی، یہ دوستی آئندہ بھی جاری رہے گی، لیکن یہ انٹرویو مزید جاری نہیں رہ سکتا، شکریہ!“۔
کالر مائیک اتار کر مودی نے اینکر کو کہا ”آو¿! میں تمہیں دروازے تک چھوڑ آو¿ں!“۔ بھارتی گجرات کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ سے انٹرویو کرنیوالا یہ کوئی اور نہیں بلکہ بھارت کا مشہور صحافی اور ٹی وی اینکر کرن تھاپر تھا۔ کرن تھاپر جو اپنے دو ٹوک اور چبھتے ہوئے سوالات کی وجہ سے میڈیا کا ایک نامور صحافی مانا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کا علم ہوگا کہ یہ کرن تھاپر دراصل ہے کون؟ یہ کرن تھاپر کوئی عام صحافی نہیں ہے بلکہ یہ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل پران ناتھ تھاپر کا بیٹا ہے۔
بھارت کہنے کو ایک سیکولر ملک ہے، جس کے مطابق بھارت میں تمام مذاہب اور عقائد کے ماننے والوں کو یکساں آزادی، ،مساوی حقوق اور معاشرے میں ترقی کرنے کے ایک جیسے مواقع حاصل ہونا چاہیے تھے، لیکن انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوا۔ طبقاتی نظام پر جڑیں مضبوط کرنیوالے بھارتی معاشرے میں ” اعلیٰ نسل“ کے ہندو¿وں کے سوا دوسرے کسی کو حقوق حاصل نہیں۔
بھارت بھر میں اقلیتوںکے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ آغاز سے ہی بغض کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ گجرات میں زندہ جلائے جانیوالے ہزاروں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کے لواحقین آج بھی انصاف کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
 بھارت نے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا،دنیا کی کوئی اخلاقیات یا کوئی قانون اسکی اجازت نہیں دیتا۔ مقبوضہ کشمیر کی حالت زیادہ خراب اور پریشان کن ہے اور جب بھی مسئلہ کشمیر کا حل نکلنے کا کوئی سلسلہ ہوا تو اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہندو انتہاپسند ”ہاکس“ نے اس موقع کو سبوتاژ کردیا۔بابری مسجدسے لے کر گجرات تک اور سمجھوتہ ایکسپریس سے لے کر ہیمنت کرکرے کے قتل تک ، بربریت کے ان واقعات کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں۔صرف مسلمان ہی نہیں دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی بھارت میں خصوصی نفرت کا مظاہرہ عام ہے۔
ستر اور اسی کی پوری دو دہائیوں میں سکھوں کی نسل کشی کی گئی۔اپنی قوم کی آزادی کیلئے فعال ہزاروں سکھ نوجوانوں کو قتل اور لاکھوں کو شبہ میں گرفتار کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غائب کردیا گیا۔ سکھوں کے مقدس مقامات کا تقدس پامال کیا گیا۔ گولڈن ٹیمپل کو فوجی بوٹو ںتلے روند ھ کر خون سے نہلایا گیا۔سکھ خواتین کی انفرادی اور اجتماعی بے حرمتی کی گئی۔ مسیحیوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان پر بھی یکساں ظلم روا رکھا گیا۔ مسیحیوں کے چرچ جلائے گئے۔انکے مذہبی رہنماو¿ں اورپادریوں کو زندہ جلایا گیا۔مسیحیوں کی املاک تباہ کردی گئی۔انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ آج مسیحی بھارت میںتیسرے درجے سے بھی کم تر شہری ہیں۔
علاقائی تعصب بھارت کی رگ رگ میں موجود ہے۔مغربی بنگال، آسام اور تامل سمیت دیگر علاقوں میں برسوں سے نسلی بنیادوں پر کھیلا جانے والا موت کا کھیل آج بھی رک نہیں پایا۔ بھارت میں انتہاپسند ہندو پالیسی سازوں نے اراداً اقلیتوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند رکھے۔ بالخصوص فوج اور پولیس میں اقلیتوں کی تعداد آٹے میںنمک سے بھی کم رکھی گئی۔ سیکولر نعرے کے ساتھ جنم لینے والے بھارت میں آج بھی کوئی پالیسی اقلیتوں کو دبائے رکھنے کا عزم رکھنے والے انتہاپسند ہندو¿وں کی مرضی کے بغیر نہیں بنائی جاسکتی۔متعصب نصاب تعلیم کے ذریعے پہلے اقلیتوں کوتعلیم سے متنفر کیا گیااورپھر انہیں ترقی کے راستے سے بھی اتنادور کردیا گیا کہ دنیا کے ساتھ قدم بہ قدم چلنے کیلئے اقلیتوں کو کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔
دوسری جانب پاکستان ہے، جو کہنے کو تو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، لیکن پاکستان میں آج تک کوئی مذہبی جماعت مرکز میں اقتدار میں نہیں آسکی ، بلکہ کبھی غیر مذہبی جماعتوں کے اقتدار کیلئے خطرہ بھی نہیں بنی، لیکن اسکے برعکس بھارت میںکبھی کانگریس کے تنگ نظر ہندو کی حکومت رہی اور کبھی کٹر انتہا پسند ہندو¿وں کی شکل میںبھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلم دشمنی میں ووٹ لے کر اقتدار حاصل کیا۔بی جی پی کے اقتدار میں آنے سے ہی بھارت کے سیکولرزم کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی نے اپنے سابق وزیر خارجہ کو صرف اس لیے پارٹی سے نکال دیا کہ جسونت سنگھ نے قائداعظم پر کتاب لکھ کر ایسا سچ بولا تھا جسے جھٹلانا ممکن نہیں تھا۔
اسکے برعکس پاکستان میں گزشتہ دس برسوں سے انتہاپسند عناصر کیخلاف کارروائی جاری ہے، اس دوران ہزاروں دہشت مارے اور گرفتار کیے گئے، پاکستان میں سانحہ لال مسجد بھی رونما ہوااور سوات میں مذہبی شدت پسندوں کیخلاف فوجی آپریشن بھی کیا گیا اور اب شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کیخلاف باقاعدہ فوجی آپریشن جاری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت میں ہندو انتہاپسندعناصراور ہندو دہشت گردوںکی سرکوبی کیلئے فوج کو استعمال کرنے کا خیال بھی ذہن میں لایا جاسکتا ہے؟اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔
قارئین محترم! جس انداز سے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے ایک سابق بھارتی آرمی چیف کے صحافی بیٹے کو سوالوں کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کچھ کہنے سے انکار کر دیا تھا، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت میں سیاستدانوں کی کیا سوچ ہے؟
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے وزیراعظم کا رویہ ثابت کرتا ہے کہ تریسٹھ برس پہلے برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ ریاست کے حصول کا جو فیصلہ کیا تھا، وہ غلط نہ تھا۔گجرات کا اُس وقت کا وزیراعلیٰ کرن تھاپر کو دروازے پر چھوڑنے آیا تو نریندرا مودی نے اسے کہا تھا” مجھے بھارت کی مہان کرسی پر بیٹھنے دو، میں تمارے تمام تھپڑوں کا جواب دو ں گا“۔ مودی نے کب کی بھارت کی مہان کرسی سنبھال لی، لیکن تھاپر کو اپنے” تھپڑوں“ کاجواب نہیں ملا۔

نازیہ مصطفٰی

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر-دی نیشن