کرکٹ تماشا بنی…ہم تو اس آئین کے ہاتھوں مر چلے
حافظ عمران
پی سی بی کا آئین اور اعلامیہ مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ کیس عدالت میں ہے آپ نیا آئین کس طرح جاری کر سکتے ہیں۔ کیا آپ عدالت کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں یہ ریمارکس ہیں سپریم کورٹ کے معزز جج ثاقب نثار کے عدالت نے پی سی بی کے آئین کا نوٹیفکیشن معطل کر کے نجم سیٹھی کو چیئرمین پی سی بی کے عہدے پر بحال کر دیا ہے۔ معزز عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ جس معاملے پر عدالت نے حکم امتناعی دیا اس پر آئین بنا کر نوٹیفکیشن کیسے جاری کیا عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم کیسے حکم جاری کر سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ کوئی قانونی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس لئے اجازت لینا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ ہے تارہ ترین منظر نامہ پاکستان کرکٹ کا‘ جمعرات کی دوپہر جسٹس (ر) جمشید علی شاہ عبوری چیئرمین کے عہدے کا چارج لینے کرکٹ بورڈ پہنچے اور تقریباً 22 گھنٹے تک وہ اس عہدے پر موجود رہے۔اب ان کی جگہ نجم سیٹھی لے چکے ہیں۔
پاکستان کرکٹ کبھی خوشی دیتی ہے تو کبھی غم کبھی ہنساتی ہے تو کبھی رلاتی ہے‘ اس کے دکھ میں کبھی شائقین اپنے ٹیلی ویژن توڑتے ہیں تو کبھی جذباتی ہو کر اپنا سر پھوڑتے ہیں‘ یہ تمام واقعات قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے مشروط اور جڑے ہوئے ہیں لیکن اب منظر نامہ کسی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ اب کھلاڑیوں کی کارکردگی کے ساتھ بورڈ کے انتظامی معاملات نے عوام کے لئے تفریح کا اچھا خاصا سامان کیا ہے۔ ملکی سطح پر غیر سنجیدہ طبقے کے لئے یہ تفریح ہے تو سنجیدہ حلقوں میں اس حوالے سے پریشانی اور اضطراب پایا جاتا ہے بین الاقوامی سطح پر اسے جگ ہنسائی کہا جا سکتا ہے کیونکہ کوئی کچھ نہیں جانتا نہ ہی وثوق سے کچھ کہہ سکتا ہے کہ آئی سی سی کے آئندہ اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین کون ہو گا اور کون پاکستان کی نمائندگی کرے گا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تو عجیب صورتحال ہے۔ ہر دوسرے اجلاس میں پاکستانی نمائندے کو یقیناً یہ جملہ کہنا پڑتا ہو گا ہیلو ایوری ون آئی ایم فلاں اینڈ آئی ایم فرام پاکستان! اس صورتحال میں یقیناً بہت نقصان ہوا‘ ساکھ خراب ہوئی‘ منصوبہ بندی میں مسائل آئے‘ مستقبل کی تیاریوں کے حوالے سے واضح ٹھوس اور جامع پالیسیاں نہ بنائی جا سکیں۔ اس دور پر فتن میں ڈومیسٹک کرکٹ بھی بری طرح نظر انداز ہوتی رہی جن کا کام میدانوں کو آباد رکھنا تھا انہوں نے عدالتوں کی رونق بڑھانے کی ذمہ داری لے لی اور اس غیر ضروری ذمہ داری میں کسی حد تک کامیابی بھی نصیب ہوئی لیکن یہ ذاتی کامیابی اور عارضی خوشی تھی اس مشق سے پاکستان کی کرکٹ کو کیا فائدہ ہوا؟ کیا ہماری نیک نامی میں اضافہ ہوا‘ کیا پاکستان کے بیرونی دنیا سے تعلقات بہتر ہوگئے ‘کیا بین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت اور شناخت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ یقیناً ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں بہتری کی واردات ڈالنے اور اپنی ذات کو سب سے آگے اور مقدم رکھنے کے لئے کام کرتے نظر آتا ہے۔ ماضی میں ہمارے ہاں فٹا فٹ کپتان بدلتے تھے اور آج اسی رفتار سے بلکہ اس سے تیز رفتاری سے چیئرمین بدلتے نظر آ رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے بہت سارے معاملات عدالتوں میں چل رہے ہیں اس پریکٹس سے دنیا کو ایک اچھا پیغام کس صورت جا سکتا ہے۔ اس صورتحال کی بنیاد ذکاء اشرف کا مشکوک الیکشن تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس خود پسند الیکشن میں بعض لوگوں کی حق تلفی ہوئی۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ الیکشن اس وقت کے آئین کے عین مطابق تھا مگر آج صرف ذکاء اشرف کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے تو اس وقت آئین بنانے کے عمل میں شریک تمام افراد کو اس جرم سے بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ آج ہم آئین کی وجہ سے ہی تماشا بنے ہوئے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین آئیں بائیں شائیں بنا نظر آتا ہے۔
چیئرمین پی سی بی کے معاملے کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک لحاظ سے خالصتاً سیاسی بھی نظر آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ چودھری ذکاء اشرف کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور نجم سیٹھی کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کی آشیر باد حاصل ہے۔ نجم سیٹھی متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کی خواہش پر چیئرمین پی سی بی بنے ہیں۔ ذکاء اشرف کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے صدر پاکستان نے اس عہدے سے نواز تھا تو نجم سیٹھی کا عہدہ میاں صاحب کی مرہون منت ہے۔ وہ لاکھ کہتے رہیں یہ کہ وزیر اعظم کی خواہش ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی اس عہدے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ اب چونکہ معاملہ عدالت میں ہے کیس زیر سماعت ہے۔ ذکاء اشرف بھی پیچھا نہیں چھوڑنا چاہتے اور نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ میں بزور طاقت بٹھانے والے بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس طرح دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین پردے کے پیچھے رہ کر اپنے اپنے پسندیدہ افراد کے لئے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔
واقفان حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ ذکاء اشرف کو عدالتی کارروائی کے لئے اور اس کیس کی پیروی کے لئے اپنے سیاسی رہنما آصف علی زرداری کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ کیا ملکی کرکٹ کے لئے فائدہ مند ہے‘ کیا یہ شخصیات کی لڑائی نہیں‘ کیا اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچے گا‘ کیا اس طرح کی وارداتوں میں کھلاڑیوں کے ذہن منتشر نہیں ہوں گے؟ ہم مکمل طور پر تقسیم کی طرف جا رہے ہیں اور دھڑے بندی کے مواقع پیدا کر رہے ہیں کیا تمام اہم اداروں اور افراد کو اس نقظہ نظر سے نہیں سوچنا چاہئیے کہ پاکستان کا مفاد کس میں ہے۔ ہم کیوں اپنی ذات اور انا کے خول میں بند ہیں اور اس کے لئے سب کچھ دائو پر لگائے بیٹھے ہیں بقول شاعر؎
قرب کے نہ وفا کے ہیں
سارے جھگڑے انا کے ہیں