مسئلہ فلسطین و کشمیر کا حل اتحاد بین المسلمین
آزادی فلسطین کا ذکر ہمیں برصغیر کی آزادی کی تحریک کیساتھ ساتھ جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مسلمانان ہند نے جہاں خلافت عثمانیہ کی بحالی کیلئے بھرپور تحریک چلائی وہاں تاریخ کے ہر موڑ پر آزادی فلسطین پر ہمیشہ پُرزور اور جرا¿ت مندانہ مو¿قف اختیار کیا۔ حضرت علامہ اقبال شدید بیماری کی حالت میں تاج برطانیہ کو عربوں کے حقوق خصوصاً فلسطین کی آزادی کےلئے خطوط تحریر کئے۔ اسی طرح برطانیہ میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں فلسطین کی آزادی کیلئے برصغیر کے مسلم رہنماﺅں کا مو¿قف تاریخ کا حصہ ہے۔ بیت المقدس میں مولانا محمد علی جوہر کی قبر ایک ثبوت ہے۔ حضرت قائداعظم نے مسلم لیگ کے اجلاسوں کے علاوہ اپنے عرب بھائیوں سے حکومت برطانیہ کی وعدہ خلافیوں اور فلسطین کی سرزمین پر قائم ناجائز یہودی ریاست کے قیام کی ہمیشہ مذمت کرتے ہوئے فلسطینی بھائیوں کی جدوجہد آزادی کی بھرپور حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فلسطین جو صدیوں سے مسلمانوں کا مسکن تھا وہاں دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر پہلے فلسطینیوں سے معمولی قیمت پر ان کی زمینیں اور گھر ہتھیا لئے پھر انہیں دھکیل کر ایک علاقے تک محدود کر دیا۔ 1937ءمیں حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے حکومت برطانیہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین کا تمام مسلمانوں پر نہایت گہرا اثر پڑا ہے۔ حکومت برطانیہ کی پالیسی یہ رہی ہے کہ انہوں نے شروع سے لیکر اب تک عربوں کو دھوکہ دیا ہے اور عربوں کی اعتبار کر لینے کی فطرت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ برطانیہ نے عربوں کو مکمل آزادی دینے کے وعد ے کئے گئے جو پورے نہیں کئے گئے۔ بانیان پاکستان کی پالیسیوں کی بنیاد پر آج تک پاکستان میں بننے والی کسی کمزور سے کمزور تک حکومت نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کی جرات و حماقت نہیں کر سکے بلکہ کشمیر کی طرح فلسطین کی آزادی کو بھی ہر پاکستانی جز ایمان تسلیم کرتا ہے۔
تاہم مسلم اُمہ پر مسلط حکمران جو ملی شعور اور قومی وقار سے تہی دامن اسلامی اخوت و جذبہ جہاد سے تہی دست ہیں جن میں جرا¿ت و حکمت کا فقدان ہے۔ یہ ذاتی اقتدار کو طول دینے کےلئے قومی غیرت و حمیت کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے۔ ان حرص زادو ں اور طمع کے اسیروں نے ملت اسلامیہ کو شکست و ریخ سے دوچار کر رکھا ہے۔ اصل میں یہی قومی ملی مجرم ہیں انہی کی خود غرضانہ اور ذاتی مفاد پر مبنی رویوں نے دنیا کی ایک چوتھائی مسلم آبادی کو یکساں اور یکجاں نہیں ہونے دیا۔ انہی حکمرانوں کی عاقبت نا اندیشانہ طرز عمل نے دشمنوں کو غالب آنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی بونے اور بالشتے حکمرانوں کے بزدلانہ کردار نے مسلم ممالک کو کسی نہ کسی طرح دوسروں کا دست نگر بنا دیا۔ آج عالم یہ ہے کہ کشمیر میں سات لاکھ ہندو فوج ظلم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق کشمیر میں یہودی طرز پر ہندوﺅں کو زبردستی آباد کرنے کےلئے پانچ سو کروڑ کے فنڈ جاری کئے گئے تاکہ مسلم آبادی کی اکثریت کو متاثر کیا جا سکے اسی خطیر رقم سے کشمیر میں پنڈتوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں اور اسلحہ خانے تعمیر کر کے تحریک کشمیر کو کچلنے کا راستہ اختیار کیا جا سکے۔ نئی دہلی میں قائم اقوام متحدہ کا مبصر آفس خالی کرانے کا بھی پتہ چلا ہے۔ کشمیریوں کی نمائندہ تنظیم حریت کانفرنس کیمطابق بھارت کشمیر میں انتہائی اقدام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کو اقوام عالم کی نظروں سے دور رکھنے کےلئے اقوام متحدہ کا مبصر دفتر بند کر دیا گیا اسکے بعد ایک کروڑ پچاس لاکھ انسانی جانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا کوئی بتا سکتا ہے نہ ضمانت دی جا سکتی ہے۔ انسانی حقوق کی چیمپئن دنیا کے ہر خطے میں متحرک نظر آتے ہیں مگر فلسطین اور کشمیر کے مظلوم نہتے شہریوں پر ہونیوالے ظلم وستم سے نہ جانے کیوں نظریں چراتے ہیں۔ فلسطینی عوام پر حالیہ وحشیانہ بمباری حقوق انسانی علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ گھروں بازاروں میں بیٹھے زندگی کے معمولات میں مصروف لوگوں کو جیٹ طیاروں اور ڈرون حملوں سے کھنڈر میں تبدیل کر دینے پر عالمی ضمیر جاگا نہ مسلم اُمہ نے بربریت کے خلاف کوئی لائحہ عمل اختیار کرنے کا عندیہ دیا۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ فلسطین کی جانب سے چالیس راکٹ قبلہ اول کے اردگرد داغے گئے جس کا بظاہر کوئی نقصان ظاہر ہوا نہ کسی ہلاکت کی خبر دی گئی لہٰذا اس کی سزا کے طور پر مظلوم فلسطینیوں کی آبادیوں پر بے رحمانہ بمباری کی گئی۔ سول آبادی کو خاک و خون میں نہلایا گیا جس میں بے گناہ بچے اور خواتین شامل تھے اس پر ابھی اکتفا نہیں ہُوا، ابھی اسرائیل چالیس ہزار زمینی فوج کے ذریعے ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے انکے جارحانہ عزائم نے یہ بھی شامل ہے کہ کچھ عرصے کےلئے غزا کو ٹیک اوور بھی کر لیا جائے گا ایسا ہی ایک آپریشن چند سال قبل کیا گیا تھا جس میں تقریباً ڈیڑھ ہزار فلسطینی شہید کئے گئے جن میں نصف کے قریب خواتین اور بچے شامل تھے۔ خون مسلم اتنا ارزاں پہلے تو کبھی نہ تھا۔ قارئین کرام پورا عالم اسلام تنزلی کی جانب محوِ سفر ہے، زوالی کیفیت کا شکار ہے۔ کہیں عرب عجم کی خلیج ہے تو کہیں مسلکی تضادات نے اُمت محمد عربی کو زخم زخم لہو لہو کر رکھا ہے۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک کعبہ اور ایک قرآن پر یقین رکھنے والے باہم دست و گریبان ہیں۔ عرب و عجم ہو یا مصر شام، افغانستان پاکستان ہو یا بنگلہ دیش، مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہے ہیں، پگڑیاں اچھال رہے ہیں۔ اسلامی دنیا کی اسی کمزور ی نے دشمن کو طاقتور بنا رکھا ہے۔
گر آج بھی ہو ابراہیم کا ایماں پیدا
تو آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اسی زبوں حالی کے عالم میں باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو آج بھی مسلمانوں کی صفوں میں صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد موجود ہیں۔ جس دن کشمیر اور فلسطین کی آزادی کےلئے مسلمان یکجاں ہو گئے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں روک سکتی۔