حضرت ابو انیس صوفی محمد برکت علی لدھیانوی ؒ
دورِ حاضر کی عظیم ہستی حضرت ابو انیس صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ کا عرس مبارک 16 رمضان المبارک کو بڑی عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ اِس سلسلہ میں ایک بہت بڑی تقریب کیمپ دارالاحسان سمندری روڈ فیصل آباد میں اور دوسری بڑی تقریبات مرکز الاحسان چک نمبر 128 (ب) ضلع فیصل آباد فیضان البرکت سرگودھا روڈ فیصل آباد، مرکز دارالاحسان سالار والا ‘ دارالاحسان ثانی شیخوپورہ روڈ گوجرانوالہ میں منعقد کی جا رہی ہیں۔ حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ مادر زاد ولی تھے۔ ملک کے اندر و باہر دین کی تبلیغ اور خدمت کے جو کارہائے نمایاں اِس عظیم درویش نے انجام دئیے، وہ کسی عام آدمی کے بس میں ہو نہیں ہو سکتے۔ اُنہوں نے دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کیلئے جو انداز اپنایا وہ اُنہی کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ آپ ایسے بزرگ تھے گویا:
نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
مجھے کئی دہائیوں پہلے حضرت ابو انیس صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ اِس حاضری کے بعد میری دلی کیفیت کچھ ایسی ہو گئی کہ بار بار جانے کو جی چاہتا تھا۔ اُن کے ہاں حاضری سے دل کو ایسا سکون حاصل ہوا کہ اُسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اِن ملاقاتوں کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے کہ لکھنے بیٹھوں تو بات ختم ہونے میں ہی نہ آئے۔ اُن کی کرامات کے حوالے سے مون ڈائجسٹ نے متعدد خصوصی نمبرز شائع کئے ہیں۔ہم نے حال ہی میں ماہنامہ ”مون ڈائجسٹ“ کا خصوصی نمبر شائع کیا ہے۔ یہاں میں مختصر عرض کر سکتا ہوں کہ اِس مردِ دوریش نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید و سُنت کے اتباع میں گزار دی۔ میں1977ءمیں پہلی دفعہ اُن کی خدمت میں اِس وقت حاضر ہوا جب سالار والا میں چند ہی لوگوں کو اُن کی موجودگی کا علم ہُوا تھا۔ سالار والا میں اُنہوں نے اپنی موروثی جائیداد اسلام کیلئے وقف کر دی اور یہاں پر عظیم ادارے دارالاحسان کی بنیاد رکھی جس کے وابستگان آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پندرہ سال فوج کی سروس کے دوران اُن کی بہت کٹھن تربیت ہوئی اور اُن کی اِس تربیت کا رنگ بعد میں اُنکے کارناموں میں نظر آتا ہے۔ ابتدا میں دارالاحسان کے اندر کچے مکانات تھے اور یہاں پر ہی قرآن حکیم محل بنایا گیا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضرت صوفی ابو انیس محمد برکت علی لدھیانویؒ کو قدرت نے یہ ڈیوٹی تفویض کر رکھی ہے کہ وہ قرآن حکیم کے اوراق تک کو اکٹھا کر کے اہتمام سے رکھیں اور یوں قرآن حکیم کی عظمت سے پوری ملت اسلامیہ کو آگاہ کریں۔ آہستہ آہستہ اُن کے عقیدت مندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس میں کئی عالم فاضل اور بابو ٹائپ قسم کے لوگ شامل ہیں مگر آج اُن کی زندگیاں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو گناہ کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے مگر نگاہی بخشؒ کے فرزند ارجمند نے اُنہیں اِک نگاہ التفات سے سراپا مسلمان بنا دیا۔ اب یہ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ تبلیغ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہاں پر کئی لوگوں نے دین کی تبلیغ کیلئے زرِ کثیر دینا شروع کر دیا۔ حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانوی ہر کسی کا عطیہ قبول نہیں کرتے تھے اور جو رقم لیتے وہ شام تک خرچ کر کے حساب بیباک کر دیتے تھے۔ اُن کے دور کے آمد و خرچ کے رجسٹر اِس امر کے گواہ ہیں کہ اِن رجسٹروں کو ترتیب دینے کا کام میاں محمد شفیع اور نجیب اﷲ ولانہ کیا کرتے تھے۔ اِن دونوں حضرات کو بابا جی سرکارؒ کا خدام خاص ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تمام لوگ بابا جی سرکارؒ کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے آج بھی سرگرم عمل ہیں۔ بابا جی سرکارؒ کے مرکز طریقت میں ایسے ایسے لوگوں نے منزل حاصل کی جن کے ذکر کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے سابق صدر جناب محمد رفیق تارڑ، وزیراعظم میاں نواز شریف، سابق وزیراعظم ملک معراج خالد (مرحوم)، ملک غلام مصطفے کھر، سابق وفاقی وزیر حفیظ اﷲ چیمہ، سابق وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی مرحوم، ڈاکٹر انور سدید، محترمہ بشریٰ رحمن، اشفاق احمد، عنایت حسین بھٹی، مسٹر جسٹس محمد عارف چوہدری، جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد اقبال (مرحوم)، جسٹس سردار محمد ڈوگر، جسٹس محمد صدیق (مرحوم)، جسٹس اسد اﷲ شیخ (مرحوم)، جسٹس منیر احمد مغل، سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات حاجی محمد اکرم (مرحوم)، دہشت گردی کورٹ کے سابقہ جج خواجہ فہیم، سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس خواجہ محمد شریف، عدالت عالیہ کے کئی دیگر جج و وکلاءحضرات کی کئی اعلیٰ سرکاری افسران جن میں ڈپٹی کمشنر میاں فیض کریم (مرحوم) بھی شامل ہیں۔ حضرت بابا جیؒ کے عقیدت مندوں میں شامل ہیں۔16 رمضان المبارک بمطابق5 جنوری1997ءکو یہ مردِ حق آگاہؒ دنیا سے پردہ کر گیا۔