ایرانی جوہری معاہدہ : پہلے مرحلے کے مذاکرات بے نتیجہ‘ حتمی ڈیڈ لائن کے چھ روز باقی رہ گئے
ویانا(اے این این‘ بی بی سی) جوہری معاہدے سے متعلق ایران اور اور 6عالمی قوتوں کے مذاکرات کا پہلا مرحلہ بے نتیجہ ختم،معاہدے پر اتفاق کی ڈیڈ لائن میں6روز باقی رہ گئے۔تفصیلات کے مطابق ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے کسی حتمی ڈیل کے لیے امریکا، جرمنی، فرانس، اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے اتوار کو ویانا میں ملاقاتیں کیں۔ ایران کے ساتھ جاری ان مذاکرات میں شرکت کے لیے چین اور روس کے نمائندے بھی آسٹریا کے دارالحکومت پہنچے ہیں۔ یہ اعلی سطحی وفود ایران کے جوہری تنازعے کے حوالے سے کسی حتمی ڈیل تک پہنچنے کے لیے 20 جولائی کی طے کردہ ڈیڈ لائن تک اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اس اجلاس میں شریک ہوئے۔دنیا کے چھ سرکردہ ممالک اور ایران کے درمیان اتوار کو ہونے والی بات چیت بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش میں ہے، جب کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو پرامن قرار دیتا ہے۔ایران کے جوہری پروگرام مذاکرات میں شامل اہم ممالک نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان بہت سارے شگاف ہیں۔ایران کے جوہری پروگرام کے معاہدے پر مذاکرات کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا آنے والے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ اس بابت ابھی بھی اہم اختلافات ہیں۔ جان کیری کے اس خیال سے فرانس اور برطانیہ بھی اتفاق رکھتا ہے ایک ایرانی سفیر نے بھی کہا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ شگاف پر کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔مذاکرات میں ایران کو اس بات کے لیے راضی کیا جائے گا کہ وہ اپنے خلاف پابندیاں ختم کرنے کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے۔جان کیری نے کہا کہ ایران کے جوہری سمجھوتے پر اب بھی قابل غور جھول موجود ہیں۔ اس لیے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا آیا کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ ایران کے جوہری افزودگی کے پروگرام کو ترک کیے جانے کے سلسلے میں سمجھوتا طے پانے میں قابل غور شگاف موجود ہیں۔اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ایران جوہری بم تو نہیں بنا رہا۔ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے مذاکرات میں دونوں فریق کی طرف سے پورے اعتماد کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اعتماد ایک دو طرفہ راستہ ہے۔برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا: ہم نے کوئی فیصلہ کن پیش رفت نہیں کی اور ان میں ابھی کافی دڑار ہیں۔ایسے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ 20 جولائی کی ڈیدلائن میں توسیع کی جائے۔ویانا میں جاری مذاکرات میں ایران کے ساتھ اہم عالمی قووتوں کا گروپ پی 1+5 شامل ہے۔گذشتہ سال اس سلسلے میں ایک عبوری معاہدہ ہوا تھا۔ تاہم ایران کی یورونیم افزودگی اور پلوٹونیم پیداوار پر طویل مدتی روک لگانے کے سلسلے میں کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔ یاد رہے کہ یورینیم اور پلوٹونیم ایسے مادے ہیں جن سے جوہری ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔عالمی قووتوں کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کوشاں ہے جبکہ ایران اس کی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی سے اپنے پاور پلانٹ اور طبی ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے۔اگر معاہدہ ہو جاتا ہے تو ایران سے تیل فروخت کرنے اور تجارت پر لگی پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔جان کیری نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرن ایشٹن سے ملاقات سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: واضح طور پر ابھی بھی کئی اہم رخنے ہیں اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ ایران سے جوہری ہتھیار نہ بنانے کے لیے طویل مدتی یقین دہانی چاہتے ہیں۔اس بات کی یقین دہانی اہم ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنانے جا رہا ہے اور یہ کہ ان کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور ہم یہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ایران کے عربی ٹی وی چینل العالم کے مطابق ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تمام اہم اور بڑے مسئلے ابھی بھی متنازع ہیں۔ہم دڑار کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ایران کے وزیر خارجہ جاوید ظریف نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعے سنجیدہ گفتگو پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھروسہ ایک دوطرفہ راستہ ہے۔فرانسیسی وزیر خارجہ لارینٹ فیبیو نے کہا ہے کہ دوریاں ابھی بھی قائم ہیں۔