فلسطین کے لیے بھی ایک لانگ مارچ
گزشتہ کئی دنوں سے دنیا بھر کے نیک دل لوگ فلسطین پر ہونے والے ظلم پر اظہارِ افسوس کر رہے ہیں۔ ایک چھوٹا سا ملک جب چاہے نہتے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ گرا کر اپنی بربریت کی دھاک بٹھاتا اور دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کا مذاق اڑاتا ہے۔ لیکن حیرت ہے انقلاب اور مارچ والوں نے اس حوالے سے کسی قسم کی بڑی سرگرمی کا اعلان نہیں کیا ۔مسلمان ملک ہر جگہ آپس میں دست و گریباں ہیں یہ کوئی عام بات نہیں بلکہ اِس کے پیچھے ایک گہری سازش ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر نہ صرف انھیں کمزور کیا جا رہا ہے بلکہ اُن کے وسائل پر بھی ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ پاکستان کبھی اسلامی ملکوں میں اسلحے، فوج، وسائل اور افرادی قوت کے حوالے سے ایک اہم ملک سمجھا جاتا تھا۔ دشمنوں نے یہاں بھی ایسی سرنگ لگائی کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ اب ذرا حالات سنبھلنے کی اُمید پیدا ہوئی تو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے میدان میں آگئے ہیں جن کا انقلاب لا قانونیت اور تباہی کی طرف پیش قدمی ہے۔ جہاں صرف لوٹ مار کا بازار گرم ہوگا اور ملک کئی سال پیچھے چلا جائے گا سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ بھی کسی لابی کی سازش تو نہیں جس کا شکار ڈاکٹر صاحب خود بھی اس سے لا علم ہوں۔ رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کے خون بہا کر اسرائیلیوں نے تمام مسلمانوں کو چیلنج کیا ہے اور ایک چیلنج یہ بھی کہ ہم سب بحیثیت قوم اپنے اندر موجود کمزوریوں پر قابو پائیں۔
آج کل مختلف شوز، پروگراموں، اشیا اور سر گرمیوں کے ساتھ رمضان کا لفظ نتھی کر کے اُسے معتبر کر دیا گیا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے عمران خان صاحب نے سونامی لانگ مارچ کو آزادی مارچ کا نام دے دیا ہے۔ اس لیے اب اُمید کی جاسکتی ہے کہ خونریزی، بد امنی اور تشدد کے واقعات خاطر خواہ کم ہو جائیں۔ متوقع حادثات میں یقینی کمی کیسے ممکن ہوسکتی ہے ابھی اُس کا علم نہیں ہو سکا۔ اس لانگ مارچ کو آزادی مارچ کا نام دے کر عمران خان نے اپنی دانست میں ایک انتہائی اہم کام کیا ہے کہ 14 اگست جو آزادی کا دن اُسی دن آزادی مارچ بھی کر لیا جائے۔ لیکن جس طرح روز بروز عوام کے غم و غصے اور اشتعال کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اس سے تو کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ آزادی مارچ ہوگا۔ اس کے کئی نقصانات ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ بپھرے ہوئے ہجوم قومی اثاثوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتے ہیں اور اس کے لیے پولیس کی ذرا سی روک تھام بہانہ بن سکتی ہے۔ دوسرا اس شدید گرمی کے موسم میں انسان کے جذبات و احساسات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ذرا سی تلخی بہت بڑی لڑائی کا باعث بن جاتی ہے۔ مختلف گروہ آپس میں دست و گریبان ہوسکتے ہیں۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ لانگ مارچ جسے آزادی کا نام دیا گیا ہے واقعتا کسی کے خلاف ہے کیونکہ حکمرانوں کے آہنی قلعوں کو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سارا نقصان پاکستان اور عوام کا ہوگا کیونکہ نقصان کا ازالہ تو آخر غریب عوام نے ہی کرنا ہے تو اس سے بہتر نہ ہوگا کہ غریبوں کی فلاح کا کوئی منصوبہ بنایا جائے۔ جس طرح خادم پنجاب نے خوشحالی لانگ مارچ کی بات کی ہے جو چین کی طرز کا ہوگا۔ یعنی مسلسل محنت اور دیانت داری سے ملک کا کھویا ہوا وقار حاصل کیا جائے۔ دنیا میں ہماری قومی پہچان پہلے ہی کوئی خاص اہمیت کی حامل نہیں اس پر تماشے پر تماشا لگا کر ہم کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ آخر ایک صبر کا مادہ کیوں نہیں عوام کا نام لے کر ذاتی اقتدار کی ہوس کے لیے اتنے بے تاب ہو چکے ہیں۔
کتنا اچھا ہوتا کہ رمضان کے مہینہ میں ہم سب مل کر اپنا اپنا احتساب کرنے کا مارچ کرتے اور خود سے عہد کرتے کہ آئندہ اپنا اپنا فرض دیانت داری سے ادا کریں گے اور اس ملک کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو وقف کر دیں گے۔ پھر دیکھئے خدا کی رحمت ہم پر کس طرح برستی اور ہم ایک معتبر قوم کی طرح ابھرتے اس وقت ملکی ترقی کے ساتھ ساتھ شمالی وزیر ستان میں بے گھر ہونے والے افراد کی مالی امداد بھی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے یہ بات بے حد فکر انگیز ہے کہ حکومت نے بیرونی مدد سے انکار کیا ہے۔ یہ ایک انتہائی عجیب فیصلہ ہے، کیونکہ دنیا بھر میں آفات، حادثات اور جنگوں کے دوران بے گھر ہونے والوں کی امداد ایک انسانی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان خود بھی اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کرتا رہتا ہے۔ دس لاکھ متاثرین کو خاطر خواہ سہولیات فراہم کرنا اس وقت کسی طور ممکن نہیں پھر آپریشن کے خاتمے کے بعد ان کی دوبارہ بحالی ایک لمحہء فکریہ ہے۔ مصیبت کے وقت امداد قبول کرنے سے تو ترقی یافتہ اقوام بھی انکار نہیں کرتیں اور وہ قوم جس کا بال بال بیرونی قرضوں کے جال میں پھنسا ہو وہ ایسا کیسے سوچ سکتی ہے۔ یہ کوئی ایسا قرض نہیں جس کے لیے ہم ہمیشہ جھولی پھیلاتے رہے ہیں بلکہ یہ ایک اپیل ہے جو انسانی دلوں کی انسانی دلوں سے ہوتی ہے اور انسانیت کا فریضہ بھی ہے اور فرض بھی ہے۔