• news

وزیرستان کے متاثرین کی مشکلات اور ہمارا فرض

پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جو صرف قدرتی آفات ہی نہیں بلکہ انسانوں کی بے حسی اور شرپسندی کی بدولت پیدا ہونے والے شدید مصائب کا شکار بھی رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسا پہلا المیہ تقسیم کے وقت رونما ہوا تھا جب لاکھوں مہاجرین نوزائیدہ مملکت خداداد پاکستان آئے۔
دوسری بڑی ہجرت 2009ء میں دیکھنے میں آئی جب سوات اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کرنے کے لئے پاک فوج نے آپریشن کیا جسے کامیاب بنانے کے لئے دس لاکھ سے زائد افراد نے گھربار‘ مال مویشی اور زمین جائیداد سب کچھ چھوڑ دیا۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو خوراک‘ پانی اور صحت کی سہولیات کی قلت سمیت دیگر بہت سے سنگین مسائل پیداہوئے جبکہ مرے پرسودرے کے مصداق اسوقت ملک پر حکومت بھی وہ مسلط تھی جس کا اپنا ہی پیٹ نہیں بھرتا اور ساکھ کا یہ عالم تھا کہ کوئی بیرونی ملک امداد بھی دینے کو تیار نہیں تھا۔
 چنانچہ ان بے گھر افراد کے کیمپوں میں خوراک کی قلت اور متعدی امراض پھیل جانے کی وجہ سے سنگین المیے رونما ہوتے رہے۔
 بدقسمتی سے ماضی کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے ناسور کی جڑیں گہری ہوتی چلی گئیں اور جب مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا تو دہشت گرد اس قدر طاقتور ہو چکے تھے کہ کھلے عام ریاست کو چیلنج کر اور ساری قوم کو دھمکیاں دے رہے تھے جس کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا تجارتی و معاشی سرگرمیوں پر خوف و ہراس اور جمود طاری تھا جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان کو ترجیح دینا تو دور کی بات اپنی سرمایہ کاری کی فہرست تک سے خارج کر دیا تھا۔ نوازشریف نے وزیراعظم بنتے ہی کوشش کی کہ شدت پسندی کا معاملہ بات چیت کے ذریعے احسن طریقے سے حل ہو جائے لیکن قیام امن کی خواہش کو دہشت گردوں نے شاید کمزوری سمجھ لیا شمالی وزیرستان میں آپریشن کا کڑا فیصلہ کرنا پڑا جس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر متاثرہ علاقوں کے لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دیگر علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔
سرکاری طور پر تقریباً ساڑھے سات لاکھ افراد کی رجسٹریشن ہو چکی ہے لیکن غیر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشن سے متاثر ہونے والے علاقوں سے دیگر علاقوں میں ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد آٹھ لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ ان لاکھوں افراد کو جھلستی دھوپ سے بچانے کے لئے سائبان مہیا کرنا‘ روزانہ خوراک اور پینے کا پانی فراہم کرنا‘ بیماریوں سے بچانا اور دیگر ضروریات زندگی کی دستیابی یقینی بنانا اتنا بڑا چیلنج ہے جس کا صرف تصورہی کیا جا سکتا ہے مگر اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف پر عزم ہیں اور متاثرین کی مدد کیلئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں لیکن اس سلسلے میں تاجر برادری کاکردار بہت اہمیت کا حامل ہے پاکستان کے صنعتکاروں اور تاجروں نے ہر کڑے وقت میں وہ بے مثال کردار ادا کیا ہے جس کی دنیا بھر میں اور کہیں مثال نہیں ملتی۔
شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن کے متاثرین حکومت کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی تاجر برادری کے اسی جوش و جذبے تعاون اور محبت کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت کے وسائل کم اور ان مہاجرین کے مسائل بہت ہی زیادہ ہیں۔ ہم سب کو ان متاثرین کی قدر کرنی چاہئے کیونکہ یہ لوگ پاکستان کی بنیادیں مضبوط کرنے اور ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے قربانی دے رہے ہیں لہذا ان کا ہر طرح سے خیال رکھنا ‘ آپریشن کے خاتمے تک دیکھ بھا ل کرنا اور پھر دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں بسانا ہمارا فرض ہے۔

ای پیپر-دی نیشن