بزرگ شہریوں کی بھی سنی جائے
یہ بلاشبہ حساس دل ہلا دینے والی تصویر ہے یہ تصویر ایسے بزرگوں کی ہے جن کا چلنا تو مشکل کھڑا ہونا بھی دشوار ہے وہ چلچلاتی دھوپ میں لاہور پریس کلب کے باہر ہاتھوں میں پلے کارڈز پکڑے کھڑے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ای او بی آئی کی جانب سے انہیں ملنے والی پنشن 3 ہزار 6 سو روپے میں مہنگائی کے لحاظ سے اضافہ کیا جائے بزرگ شہریوں کے لئے جو مخت مشقت کے قابل نہیں رہتے ان کی بہت بڑی اکثریت کا تعلق غریب اور انتہائی نچلے متوسط طبقے سے ہے ان کے لواحقین بھی جو اسی طبقے سے ہیں ان کے پاس بعض اوقات بزرگوں کی دوا دارو کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے لئے ایک ہزار روپے پنشن مقرر کی تھی ان کی ملازمت کے دوران وہ ادارہ یا فیکٹری وغیرہ ای او بی آئی کو ان کی جانب سے ہر ماہ یا سالانہ تنخواہ کا ایک حصہ ادا کرتے ہیں اور ان کے ریٹائر ہونے تک ادائیگی کا یہ سلسلہ جاری رہتا ے ان کے ریٹائرڈ ہونے پر ای او بی آئی کی جانب سے انہیں ایک ہزار روپے ماہانہ پنشن کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا پھر مختلف حکومتوں کے دور میں اضافہ ہوتا رہا جو اب 3 ہزار 6 سو روپے ہو گئی ہے بڑھاپے کی پنشن بلاشبہ غریب بوڑھوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہے مگر یہ اتنی ہو جائے کہ یہ بزرگ اپنے بچوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر گزارہ کرسکیں تو نہ صرف ان کی عزت نفس مجروح ہونے سے محفوظ رہے گی بلکہ انہیں ذہنی آسودگی بھی حاصل ہو گی ان کے مطالبے کا غور طلب پہلو یہ ہے کہ وہ حکومت کے خزانے سے کچھ نہیں مانگ رہے بلکہ حکومتی اعلان کے مطابق اپنے ہی جمع شدہ پیسوں میں سے مانگ رہے ہیں یہ بزرگ جو اسی ای او بی آئی کے پنشنرز ہیں اس ادارے میں جمع شدہ اربوں روپے میں سے امانت دار بنائے گئے بد دیانت افسروں نے اربوں روپے کا فراڈ کیا اس سرمایہ سے سستی اراضی انتہائی مہنگے داموں خرید کو خوب ہاتھ رنگے جن میں سے بعض کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں اور بعض مفرور ہیں بزرگ شہریوں کی امانت میں خیانت کے مرتکب یہ افراد ان بزرگوں کے مجرم تو ہیں ہی آخرت میں بھی بد دیانتی پر ان کی پکڑ ہو سکتی ہے۔
احتجاج کرنے والے بزرگوں کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈ تھے ان کے مطابق وہ 3 ہزار 6 سو روپے ماہوار پنشن میں 2 ہزار 4 سو کا اضافہ چاہتے ہیں قبل ازیں ان کی پنشن میں صدر جنرل پرویز مشرف نے اضافہ کیا جو 2 ہزار سے 3 ہزار ہو گئی پھر بطور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 600روپے کا اضافہ کیا توقع تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف بھی جو بزرگوں کا احترام و خیال رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں ان کی پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کریں گے مگر اس سلسلے میں انہوں نے ملک کے بزرگوںکو مایوس کیا ہے جن کی اکثریت ان کی حامی بھی ہے یہی وجہ ہے کہ کرپشن کی بدنامی رکھنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کو وہ آج بھی دعائیں دیتے ہیں میاں نواز شریف کی حکومت نے ان بزرگوں کو بجٹ میں پنشن میں اضافہ کا فائدہ نہیں دیا جب کہ یہ بزرگ شہری سرکاری ملازمین سے زیادہ پنشن میں اضافہ کے اس لئے مستحق ہیں کہ اب یہ کوئی پارٹ ٹائم جاب کرنے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں ایسی صورت میں جب وزیر اعظم کی ہدایت پر وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے سرکاری خزانہ سے کچھ نہیں دینا بلکہ ای او بی آئی کو صرف ہدایت دینا ہے اور ان بزرگوں کی پنشن میں اضافہ ہو جائے گا دوسری جانب اسی ادارہ میں کام کرنے والے افراد سربراہ سے نائب قاصد تک کسی نہ کسی انداز میں اضافی فائدے حاصل کر رہے ہیں دفاتر کے لئے من پسند افراد کے مکانات بھاری کرایوں پر حاصل کئے گئے۔ افسروں کے لئے گاڑیوں، ائیر کنڈیشنڈ دفاتر اور بڑی بڑی تنخواہوں کی مراعات ہیں ادارے کے پاس رقم جو سراسر امانت ہے اس سے ہر سال 2 درجن سے زائد ملازمین کو حج کرایا جاتا ہے کیا امانت کی رقم سے حج کیا جا سکتا ہے اسی سلسلے میں شرعی پوزیشن واضح ہونی چاہئیے کیونکہ یہ رقم اس محکمے کی آمدنی نہیں ہے پیسے میں ایسی قوت ہے جو انسان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج سے بلاشبہ بہت مضبوط کردار کا حامل شخص ہی نمٹ سکتا ہے۔ 15 جولائی کو یوم پنشنرز منایا گیا اور یہ رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہے وزیر اعظم نواز شریف بزرگ شہریوں کی پنشن میں اضافہ کر کے بڑی تعداد میں بزرگوں کی دعائوں کے مستحق بن سکتے ہیں۔