خالد احمد ۔۔۔۔۔۔ایک ستارہ ڈوب گیا !
خالد احمد خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے چھوٹے بھائی اور احمد ندیم قاسمی کے روحانی وارث تھے۔ وہ 2013ء میں اس دنیا فانی سے رحلت فرما گئے ۔ احمد ندیم قاسمی کے بعد جب نامور شعراء کرام سے لاہور کا وجود خالی ہونے لگا ، ہر طرف مایوسی کا سانپ پھن پھیلائے بیٹھنے لگا، نوجوانوں کو کہیں سے ٹھنڈی چھائوں میسر نہ رہی، پاک ٹی ہائوس اجڑ گیا، ناصر باغ کی محفلیں ویران ہو گئیں تو صرف یہ خالد احمد ہی تھے جنہوں نے نہ صرف نوجوانوں کو سہارا دیا بلکہ عصر حاضر کے شعراء کرام کو اکٹھا کیا اور ادبی بیٹھک میں پاک ٹی ہائوس کی یادیں تازہ کر دیں۔ خالد احمد صاحب نے نعت ، حمد خوطن، روحانیت ،محبت ،فراق ،وصال ،درد اور زندگی کے مختلف ادوار میں نازل ہونے والی کیفیات پر شاعری کی اور خوب شاعری کی ۔ نعت کا ایک شعر قابل غور ہے۔…؎
ابھی مٹی نہ کھنکی تھی، ابھی پانی نہ برسا تھا
مگر بزم عناصر میں ترے ہونے کا چرچا تھا
اسی طرح انہوں نے وطن کی محبت میں دیوانگی کی حد تک شاعری کی۔ پاکستان سے محبت ان کی گھٹی میں شامل تھی ، ان کے الفاظ ،لہجہ ،عمل ،حتی کہ ان کی سانسوں میں پاکستان کی محبت کی مہک آباد تھی ۔ فرماتے ہیں۔…؎
بچپن کے یہ اک کھیل میں تعمیر ہوا تھا
اے ریگ رواں تھم، یہ گھرواندا نہیں گھر ہے!
جب کہ اسی غزل کے مقطع میں زندگی اور زندگی میں آنے والے اتار چڑھائو کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ …؎
موسم پس دیوار مہ و سال نہ بدلا
خالد ، وہی آنکھیں ، وہی کاندھا، وہی سر ہے
محبت میں پاکیزگی کی روشن مثال جناب خالد احمد نے نہ صرف محبت کے معنی سمجھائے بلکہ مجاز سے حقیقت تک کا سفر بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کیا، رومانویت کو انہوں نے عزت اور پاکیزگی کا لبادہ اڑھایاجبکہ جنال خالد احمد کہتے ہیں کہ …؎
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
جناب خالد احمد کبھی کبھار ادبی بیٹھک میں دوستوں کے جھرمٹ میں اپنے بلند و بالا قہقہوں اور مسکراہٹوں میں یک دم خاموش ہو جایا کرتے تھے اور ایک آواز آتی تھی۔’’ لے فیر نجیب سن شعر‘‘۔ …؎
جنگ دوگز زمین کی خالد
ہم نے اک عمر لڑکے ہاری ہے
عہد حاضر کے نامور شعراء کرام جناب نجیب احمد، باقی احمد پوری، اعجاز کنور راجا، جلیل عالی، عباس تابش ، حسنین سحر، نوید صادق، ارشد شاہین، کنور امتیاز احمد اور دیگر کئی حضرات خالد صاحب کے چاہنے والوں اور شعر کی کمیت اور شاعری کے رموز سے آگاہی پاتے تھے۔ وہ ایک یونیورسٹی کی مانند تھے ، ایک ایسا درخت جو سب کو اپنی چھائو بانٹتا تھا ۔ نوائے وقت کے کالم نگار جناب رفیق غوری ہمیشہ ان کے نشانہ پہ رہتے اور وہ غوری صاحب کے نشانہ پہ رہتے ۔ خالد احمد صاحب کی جدائی نے جہاں ایک عالم سے ہنسی چھین لی ہے وہیں رفیق غوری صاحب کی زندگی کی جزو لازم جناب خالد احمد ان سے دور ہو گیا ہے۔ وہ خود نوائے وقت میں لمحہ لمحہ کے نام سے کام لکھا کرتے تھے اور کیا خوب لکھتے تھے ۔ وہ بہت خوبصورت انسان تھے ، اگرچہ وہ صوبایت کے کٹر مخالف تھے مگر بین الصوبائی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے اعلیٰ نمونہ تھے ۔
اگرچہ ان کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے اور خوبصورت پٹھانی روپ تھا مگر وہ صرف اور صرف خالصتاً پاکستانی تھے۔ جو پیار اس صوفی کو اس ناچیز سے تھا، میں اس ہجت میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جناب خالد احمد میرا استاد تھا، اور میرا یار تھا، اللہ تعالیٰ درویش کے درجات بلند کرے ۔امین!