’’گڈ گورننس‘‘
لگتا ہے کہ حکومت شدید شش و پنج میں مبتلا ہے کہ وہ ’’وہ گڈ گورننس‘‘ کا دعویٰ کرے یا بیڈ گورننس کا یا پھر محض ’’گورننس‘‘ کا میرا اپنا خیال ہے کہ فی الوقت نہ تو حکومت کہیں دکھائی پڑ رہی ہے اور نہ ہی اس کی کسی بھی قسم کی ’’گورننس‘‘۔ گڈ گورننس کے دعوے تو اس شدید ترین گرمی اور بدترین لوڈشیڈنگ کی نذر ہو کر رہ گئے ہیں اوپر سے رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ اس قیامت خیز گرم موسم میں حکومت لوڈشیڈنگ کو کم کر کے لوگوں کو تھوڑی بہت آسودگی مہیا کر سکتی تھی تاکہ لوگ اپنی مذہبی رسومات کو نسبتاً آرام دہ ماحول میں ادا کر سکیں لیکن کیا کہنے حکومتی ’’برز جمہوروں‘‘ کے جن کی بد انتظامی اور بے حسی آڑے آ گئی اور عوام پر سختیوں کی انتہا ہو کے رہ گئی حکمرانوں کی کج فہمی اور بے حسی اپنے عروج پر ہے جب کہ بدترین لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی اور احساس عدم تحفظ نے عوام کی بے چین کر رکھا ہے تاہم حاکم وقت چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور ’’راوی‘‘ ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ کج فہمی‘ بے حسی‘ بد انتظامی‘ اور افراتفری سے آلودہ اس حکومت کی گڈ گورننس تو کہیں نظر نہیں آ رہی البتہ ایک بھگڈر سی مچی ہوئی ہے جو دکھائی دے رہی ہے اور ایک چیخ و پکار کی سی کیفیت ہے جو سنائی دے رہی ہے حکومت گویا ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے والی صورت حال میں گرفتار محسوس ہوتی ہے کہ نہ کسی طرف دکھائی دے رہی ہے اور نہ کسی جانب سنائی دے رہی ہے باقی جہاں تک تعلق ہے کہ قسم قسم کے وزیروں کی ٹولیوں کا اور ان کی بھانت بھانت کی بولیوں کا تو ان ہی کے ’’ دم قدم‘‘ سے حکومتی گڈ گورننس کے دعوے مٹی میں جا ملے اور محض صدائے بازگشت بن کے رہ گئے۔ کہاں گئے بجلی کی فروانی کے مژدہ ہائے جانفراء اور لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کے نعرے اگر حکمران کچھ کرنے ’’جوگے‘‘ ہوتے تو اس جان لیوا موسم میں ان کے نعرے زیادہ بامعنی اور دو چند ہو جاتے لیکن افسوس ان نعرے باز اور منتقم مزاج حکمرانوں نے اپنی ساری توجہ اور توانائیاں تو طاہر القادری اور عمران خان کو ’’زچ‘‘ کرنے پر مرکوز کر رکھی ہیں چاہے اس مقصد کے حصول کے لئے انہیں کتنا ہی شور شرابہ اور خون خرابہ کیوں نہ کرنا پڑے۔ حالانکہ طاہر القادری اور عمران خان نے بھی ’’ٹھان‘‘ رکھی ہے کہ وہ بذات خود اپنی ’’حرکات و سکنات‘‘ کے ہاتھوں ’’زچ‘‘ ہونا پسند کریں گے چنانچہ حکومتی زعماء کو چاہئیے کہ وہ ان دونوں سیاسی لیڈروں کو ان کے ’’حال‘‘ پر چھوڑ دے اور آصف زرداری سے ’’گورننس‘‘ کے راز ہائے درون خانہ سیکھنے کی سعی کرے کہ ان سے کہیں بہتر زرداری رہے کہ نہ گڈ گورننس کے دعوے نہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے نعرے نہ بڑھک بازی نہ زبان درازی بلکہ انہوں نے کسی کو چھیڑے بغیر 5 سال ’’نیویں نیویں‘‘ ہو کے گزار لئے جب کہ اس حکومت کی ’’پھرتیوں‘‘ کا اندازہ گھائیں کہ یوں لگتا ہے جیسے اس نے پہلے ہی سال تمام حدیں عبور کر ڈالی ہیں۔ کارکردگی صفر اور نجانے ڈھول کس بات پر پیٹے جا رہے ہیں نرا شور شرابہ اوپر سے خون خرابہ لگتا ہے بعض وزراء اور زعماء کی آنکھوں میں ’’خون‘‘ اترا ہوا ہے اور وہ اجرتی قاتلوں اور کرائے کے غنڈوں کی طرح بڑھکیں لگاتے پھر رہے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ ان کی نظریں لاہور کی ’’خونی واردات‘‘ کے بعد اب اسلام آباد پر بھی ہوں لیکن ’’امکانات‘‘ ایسی بات کے ہیں کہ حکومتی ’’عقاب‘‘ ایک مرتبہ پھر ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کرنے کی آرزو پالے ہوئے ہیں۔
لیجئے جناب ابھی میں ان سطور پر پہنچا ہی تھا کہ بجلی چلی گئی اور لکھنا کیا بیٹھنا تک محال ہو گیا۔ کیا کیا جائے گرمی نے قیامت ڈھا رکھی ہے اور بجلی نہ پانی ختم کہانی۔شخصے ابھی صرف قیامت آتی ہے شرم نہیں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔