ہیرو سے زیرو تک
آمریت کی جڑ مضبوط کی سالہا سال تک اسے سینچا اور جی بھر کے اس کا پھل کھایا پھر جب بڑھتی ہوئی بیل گرد لپیٹنے لگی تو بوکھلاہٹ میں پیچھے کھڑے گھر کے بھیدی کے اشارے پر ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق،، کا درجہ پایا اور ’’سرتسلیم خم ہے جومزاج یار میں آئیکے خوشامدانہ موسم میں دھکے کی لہروں پر تیرتے ہوئے انکار نے توبہ النصوح کی فضیلت پائی۔ یہ سب نہ کوئی معجزہ تھا نہ ہی قبیلے کے طے شدہ رویے کا عکس اور نہ ہی جرات رندانہ وغیرہ۔ سیدھا سیدھا پلان اور شرارت تھی ترقی کے انتظار میں تھکے ہوئے چند سر پھروں کی کل تک تو آمریت برہنہ جھوم رہی تھی اور کئی رفقائ‘ متبادل کے طور پر موجود اور تیار برائے حلف تھے۔ بحری جہاز سے گرنے والا سکھ اگر حواس قائم رکھتا تو ہیرو نہ ہوتا۔ آمریت کی بدقسمتی کیلئے کہ انکار کا لفظ باد شمال لے اڑی حبس کا موسم تھا …؎
لب بستہ شہر سنگ کے تھے لوگ اس قدر
سرگوشیوں کی گونج نے جھونکے اڑا دئیے
پے درپے جھونکوں کی مدد سے کالی گھٹا بن گئی کالے کوٹ کو کدال بنا کر راستے کے سارے پہاڑ ادھیڑ دئیے گئے۔ ڈرائیور نے ’’ریاست ہو گی ماں کے جیسی،، کا ارتجالی ترانا گایا۔ پست قد مقرر نے بیس بیس فٹ اونچی جست لگائی اور کلام کو زمین پر گرنے سے پہلے اچک اچک کر لکی ایرانی سرکس سے بھی زیادہ مسحور کن کرتب دکھائے۔ بھوکی ترسی نادار و بیمار قوم نے آسمان میں انوکھی گھٹا دیکھی تو نہ جانے کیا سے کیا امیدیں وابستہ کر لیں۔ ساری قوم رات کو جاگی دن کو بھاگی شاہ عدل پجارو میں اور چاہنے والے ننگے پائوں پیدل۔ سیاسی پنڈتوں اور بکیوں نے انقلاب کی پیش گوئی کر کے جوئے کے ریٹ کئی گنا بڑھا دئیے۔ بخار اتنا بڑھا کہ خدشہ ہو چلا کہیں آتش فشاں پھٹ کر سسٹم کو ہی تہ و بلا نہ کر دے۔ بادشمال میں صور پھونکنے والے خود پچھتانے لگے کہ نتائج کہیں انکے ہاتھ سے نکل کر قدرت کے حوالے نہ ہو جائیں۔ بندوق کی نالی نے حالات کو تو کنٹرول کر لیا مگر دھرنا بے مثال عروج تک پہنچ کر ایسا اجڑا کہ اعتبار اور وفا کا جنازہ نکال گیا۔ بہرحال بہری جہاز سے گرنے والا ہیرو بن چکا تھا اور آمریت کی بیل کا دیرینہ مالی کھرپے کی خفیہ ضرب سے جمہوریت کا پالن ہار بن چکا تھا۔ تاریخ کے عظیم اور طویل بھونچال اور وسیع تر عوامی اجتماعی ورزش کا نتیجہ کیا نکلا ٹائیں ٹائیں فش! عدلیہ کی آزادی کا جھومر سج گیا مگر کالے کوٹ کے بخیئے ادھڑ گئے سو کے قریب پی سی او کے ہمرنگ زمین پھندے میں آنیوالے ساتھی جان کو رو رہے ہیں ہیرو کے ساتھ جس انقلاب کی امیدیں باندھی گئی تھیں وہ سب ایک ایک کر کے دم توڑ گئیں سینے پر ہاتھ مار کے ہیرو کے سر کی قسمیں کھانے والے جاںنثار بے شمار آج نادم اور پریشان ہیں بعض تو کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ساتھ ہو گیا ہیرو بنانے والا راجہ سب کی حجامت کر گیا۔
ہمارے ہیرو کا لا اُبالی اور سیماب صنعت فرزند سونے پر سہاگہ نکلا۔ سرکاری ملازمت میں آیا تو ترقی کے زینے یوں بدلا اور چڑھا کہ کسی پیشہ ور بازی گر کا گماں گزرا‘ آخر ایک ٹائی کون کے ہتھے چڑھ گیا جس نے اسے ’’چند تصویر تباں اور حسینوں کے خطوط،، والے مقام بہبود تک پہنچا دیا۔ جب قانون نوکر اور ہو اور عدالت لونڈی تو پھر دولت کی کیا مجال۔ ٹائی کون نے دولت قابو کرنے کا ایسا گُر سکھایا کہ اب صاحبزادہ خود ٹائی کون ہے۔ سودے بازی اور خرید و فروخت کی گھٹی اور تربیت نے اپنا کام دکھایا۔ قارون قبیلے سے گہرے تعلقات کے عوض اسے سونے کے پہاڑ پر بٹھا دیا گیا۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ تنقید کا سورج سوا نیزے پر آ گیا سونے کا پہاڑ پگھلنے لگا تو شوق قارونی جوتے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اب سنا ہے سپوت اصلی تے وڈے قارون کے ہاتھ بیعت ہو گیا جس نے اس کی چھاتی کے ساتھ بم باندھ کر سیاسی خودکش بمبار بنا دیا ہے۔ بمبار کا دعویٰ ہے کہ وہ بکا اور جھکا نہیں بلکہ اپنے ہیرو والد پر تنقید کا بدلہ لینا چاہتا ہے واللہ اعلم ! اہل صفائے اس منظر نام پر اناللہ پڑھا ہے جب کہ شاید ابھی مرحلہ لاحول ولا پڑھنے کا تھا کیونکہ ابھی تو ڈرامے کے اصل کرداروں راجہ ‘ قارون اور ہیروکے چہروں سے آہستہ آہستہ نقاب سرکنا شروع ہوئے ہیں۔