• news

شیرخدا کا نظام عدل!

تین حروف پر مشتمل عربی زبان کا ایک کلمہ ہے ’’عدل‘‘ جو اس کائنات کے ہر ذرے ذرے کا مرکز و محور ہے۔ عربی کے اس کلمے کے معنی ہیں ’’عدل ظلم و جود کا مخالف اور درمیانی امر اور استقامت ہے‘‘ حکماء کے مطابق عدل کسی شئے کو اس کے مقام پر رکھنا اور اس کے برعکس ظلم کسی چیز کو اس کے مقام اور محل پر سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیناجہاں کیلئے وہ نہ بنی ہو ظلم ہے۔ دین اسلام نے عدل الٰہی کا ایک عظیم تصور پیش کیا ہے اور عدل کو اللہ تبارک تعالیٰ کی صفات ذاتی میں سے ایک صفت گردانا ہے۔حضرت علیؓ عدل کے وہ داعی ہیں جن کے متعلق ’’الصوت العدل الانسانی‘‘(ندائے عدالت انسانی)کے عیسائی مصنف جورج جوردان کو کہنا پڑا کہ ’’ وہ اپن عدل پر سختی سے کاربند رہنے کی وجہ سے قتل کر دیئے گئے۔ چنانچہ جس عدل کا قرآن و سنت میں جابجا تاکیدی ذکر ملتا ہے‘ حضرت علیؓ اُس پر زندگی بھر سختی اور شدت سے کاربند اور عامل رہے اور اسی بنا پر عرب سردار‘ سرمایہ دار‘ دنیا پرست اور جاہ طلب آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ بقول ابن جوزی حاکم ہوتے ہوئے بھی آپ اونٹوں کی مالش اور گھر کے کام کاج کرتے تھے۔ آپ جو کی سوکھی روٹی پر قناعت فرماتے اور اسے بھی تھیلے میں سربمہر رکھتے تاکہ ان کے بچے رحم کھا کر روٹی پر روغن وغیرہ نہ لگا دیں۔ قمیص میں اتنے پیوند لگوا لیے کہ ایک دن کہنے لگے کہ اب تو مجھے بھی حیاء آنے لگی ہے۔ (مزید پیوند لگوانے میں) آپ نے عثمان ابن حنیف کو قحط میںان کے کسی امیر شخص کی دعوت قبول کر لینے پر سرزنش کرتے ہوئے فرمایا ’’تیرے امام نے اس دنیا میں دو روٹیوں اور ایک بوسیدہ قمیص پر اکتفقا کر لی ہے مگر میں جانتا ہوں تو ایسا نہیں کر سکتا مگر تقویٰ میں میری مدد کر۔ ایک دفعہ بازار سے گزرتے ہوئے آپ نے ایک کھجور فروش کو دیکھا کہ وہ ناقص اور بڑھیا دو قسم کی کھجوریں بیچنے کو پیش کر رہا ہے۔ آپ نے کوڑے سے اس کی سرزنش کی۔ اس نے اپنا قصور پوچھا تو آپ نے فرمایا ’’کیا تومیری حکمرانی میں مسلمانوں کو طبقات میں تقسیم کر رہا ہے؟‘‘ (یعنی اس پر تو اعلیٰ کھجوریںخرید کر کھائیں اور غریب نقاص کھجوریں)آج معاشرے جس طرح سرمایہ داری نظام کے زیراثر اعلیٰ‘ متوسط اور غریب طبقات میں تقسیم ہو چکا ہے‘ اس تقسیم کے خلاف حضرت علیؓ نے آج سے چودہ سو سال پہلے آواز اٹھائی اور عدل الٰہی اور مساوات محمدیؐکی نظام کی بات کی تھی۔ معاصر انسان اور انسانی معاشرے عدل کے فقدان ہی کے دکھ ‘ اذیتیں جھیل رہے ہیں اور مصائب و آلام کا شکار ہیں۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں اے حکمران تم پر لازم ہے کہ اپنے پہلے کی عدل پرور حکومتوں کی پیروی کرے اور ماضی کے صالحین اور دنیا میں عدل پرورحکمرانوں کا چلن عام کرے اور اسے آباد کر دے اور خصوصاً پیغمبر خدا کی سنت کی پیروی کرو اور کتاب اللہ میں جو چیز واجب کی گئی‘ اسے ہمیشہ مدنظر رکھو اور اپنا نصب العین قرار دو۔ عدل کے عین مقابل ظلم ہے۔ ظلم ایک مذموم فعل ہے۔ قرآن حکیم میں جابجا ظالمین کی مذمت اور ان پر لعنت کی گئی ہے۔ انسانیت جتنی آج عدل کی پیاسی ہے‘ اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ اسی ظلم کے بارے میں حضرت علیؓ سے ایک قول منسوب ہے کہ ملک کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے‘ ظلم کے ساتھ نہیں۔
عدل کے تقاضوں کومدنظر رکھتے ہوئے حضرت علیؓ نے عدلیہ کیلئے ایسے قاضی یا جسٹس مقرر کرتے جو تقویٰ‘ دیانت اور علمی قابلیت کے لحاظ سے بلند اسلامی معیار پر ہوتے تھے اور انہیں رشوت سے محفوظ رکھے کیلئے ان کے مشاہرے اتنے رکھے کہ وہ آبرومندانہ زندگی گزار سکتے۔ نیزآپ ان کی مالی حالت اور معیار زندگی پر بھی متواتر نگاہ رکھتے۔ چنانچہ قاضی شریح نے جب 80 دینار کا ایک مکان خریدا تو آپ نے اسے طلب کیا اور فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے 80 دینار کا مکان خریدا ہ ہے اے شریح ایسا تو نہیں کہ تم نے اس گھر کو دوسرے کے مال سے یا حرام کی کمائی سے خریدا ہو۔ ایسا ہے تو تم نے دنیا بھی کھوئی او رآخرت بھی۔حضرت علیؓ ایک ذمی کے ساتھ فریق مقدمہ بنے جب آپ عدالت میں آئے تو قاضی نے کھڑے ہوکر آپ کا استقبال کیا۔ آپ نے فرمایا ’’یہ تمہاری ناانصافی ہے۔‘‘
موجودہ دورکے ارباب عدلیہ کو ان امور سے درس لینے کی ضرورت ہے۔ آپ کی عدل پروری کا ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ صفین سے پلٹتے ایک زرہ کھو بیٹھے اور جب ایک نصرانی کو دیکھا کہ وہ اس زرہ کو پہنے ہوئے ہے تو آپ نے اس سے کہا یہ رزہ تم نے کہاں سے لی ہے۔ اس نے زرہ کو اپنی ملکیت بتایا چنانچہ آپ نے عدالت سے رجوع کیا۔ قاضی شریح نے آپ سے زرہ کی ملکیت کا ثبوت مانگا۔ آپ نے فرمایا زرہ میری ہے جو میں نے نہ بیچی نہ ہبہ کی۔ شریح نے دیکھ کہ شرعی قانون کا تقاضا ہے کہ قبضہ کو دلیل ملکیت سمجھا جائے جب تک کہ اس کے خلاف ثبوت نہ آئے تو اس نے حضرت علی کے خلاف فیصلہ دیدیا۔ سربراہ مملکت ہوتے ہوئے آپ نے اپنے خلاف فیصلہ گوارا کر لیا مگر قانون کے تقاضوں کو پورا کیا۔ ان کی عدل پسندی سے متاثر ہوکر وہ نصرانی مسلمان ہوگیا اور آپ کو زرہ پیش کر دی۔ آپ نے اس کے اسلام لانے سے خوش ہوکر وہ زرہ اسی کو عطا کردی اور اس پر مزید یہ کہ ایک گھوڑا بھی اسے تحفے میں عنایت کیا۔
صاحب ذوالفقار 19 رمضان المبارک کو عبدالرحمن ابن ملیحم کی زہر میں بچھی ہوئی تلوار سے محراب مسجد میں زخمی ہوئے اور 21 رمضان المبارک کو سرائے فانی سے مکان دائمی کی طرف محو سفر ہوئے۔ یوں کعبے میں ولادت اور مسجد میں شہادت پانے کی سعادت انہی کے حصے میں آئی۔

سید روح الامین....برسرمطلب

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر-دی نیشن