وزیراعظم کو سیٹھی پیارا ۔ کرکٹ چہیتی، ہاکی سوتیلی!
میاں صاحب مینوں کتھے پھسا دتا جے‘ نا تسی چھڈ دے او تے نا ای او‘ سیٹھی صاحب تسی فکر کیوں کر دے او میں تہاڈے نال آں تسی کم کر دے رہو‘ یہ ممکنہ جملے ہیں جن کا تبادلہ ہفتہ کے روز وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی کے مابین ہونیوالی ملاقات میں ہوا ہو گا۔ کرکٹ بورڈ کی ان دنوں بڑی عجیب صورتحال ہے۔ عدم استحکام عروج پر ہے۔ چیئرمین کی سطح پر غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف موجودہ چیئرمین کے ساتھ ملکی کرکٹ کے معاملات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں یقیناً کچھ آئینی و قانونی رکاوٹیں ہوں گی جیسے با اختیار وزیر اعظم اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تاہم کوئی پائیدار حل سامنے نہیں آ رہا۔ معاملہ عدالت میں ہے۔ سابق چیئرمین ذکاءاشرف بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ نجانے اب انہیں موجودہ چیئرمین کیوں برے لگ رہے ہیں حالانکہ انہیں بھی آصف علی زرداری نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے یہ عہدہ دیا تھا۔ اب اگر وزیر اعظم پاکستان اپنی پسند کے شخص کو تعینات کرنا چاہتے تو موصوف کا دل نہیں جلنا چاہئے کیونکہ وہ خود اسی طریقہ کار کے تحت اس اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے تھے۔ دوسری طرف وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے بارے میں یہ بات خاصی مشہور ہے کہ وہ جس کے پیچھے پڑ جائیں اس کو بھی نہیں چھوڑتے اور جس کے ساتھ جڑ جائیں اس کو بھی اپنی ضد بنا لیتے ہیں۔ ان دنوں ایسا ہی کچھ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کی ضد بن چکے ہیں۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ کی تقرری کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے پہلے یہ کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں تھا 2013ءسے اب تک عدالتی کارروائی کے نتیجے میں وہ کئی مرتبہ اپنے عہدے سے ہٹائے گئے ہیں لیکن پھر واپس بھی آ جاتے ہیں۔ چند روز قبل سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) جمشید علی شاہ کو کرکٹ بورڈ کا عبوری چیئرمین مقرر کرتے ہوئے 30 روز کے اندر انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اگلے ہی روز نجم سیٹھی کو بحال کر دیا گیا۔ موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم کی نجم سیٹھی سے ملاقات تمام اہم اداروں اور افراد کو ایک واضح پیغام ہے کہ حکومت ”مسٹر نجم عزیز سیٹھی کی پشت پر ہے اور وزیر اعظم ہاﺅس کے مکین ہر حال میں نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین دیکھنا چاہتے ہیں۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ سوشل میڈیا پر اور مختلف مواقع پر برملا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ وزیراعظم پاکستان کی خواہش پر کرکٹ بورڈ میں کام کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی نجم سیٹھی کی حمایت کی ایک واضح دلیل چیئرمین پی سی بی کے ساتھ ان کی مسلسل ملاقاتیں ہیں۔ ایک طرف پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر اولمپئین چودھری اختر رسول ہیں اسلام آباد کے کئی چکر لگا چکے ہیں لیکن میاں نواز شریف سے ان کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ ہاکی فیڈریشن کے فنڈز کی سمری بھی پی ایچ اےف ذرائع کے مطابق کئی روز سے وزیر اعظم ہاﺅس میاں نواز شریف کی نظر کرم کی منتظر ہے۔ تاہم وزیر اعظم کے پاس ہائی کھلاڑیوں اور فیڈریشن کے صدر جن کا تعلق ان کی اپنی جماعت سے ہے اس کے لئے کوئی وقت نہیں لیکن نجم سیٹھی جب خواہش کرتے ہیں ملک کی اعلیٰ ترین، معتبر ترین، مصروف ترین اور بااختیار ہستی سے ملاقات کر کے مخالفین کو یہ باور کراتے ہیں کہ میری حمایت کوئی اور نہیں اس ملک کے عوام کا منتخب وزیراعظم کر رہا ہے۔
موجودہ صورتحال یقیناً پریشان کن ہے آئندہ سال کے آغاز میں عالمی کپ ہونا ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان نے اہم سیریز کھیلنی ہے۔ ان حالات میں کیا عدم استحکام کی صورتحال پاکستان کرکٹ کے لئے تباہ کن ثابت نہیں ہو گی۔ نجم سیٹھی کی تقرری اور وزیر اعظم کی طرف سے ان کی حمایت پر اعتراض کیا جا سکتا ہے لیکن بگ تھری والے معاملے کے بعد آئی سی سی کی سطح پر جس طرح انہوں نے ایگزیکٹو کمیٹی میں اپنی جگہ بنائی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ساتھ ہی بگ تھری کی حمایت کے بعد بگ فور کا درجہ حاصل کرنے کے بعد آئندہ آٹھ سال میں 77 ٹیسٹ میچز بھی کھیلنے کو ملیں گے۔ دنیائے کرکٹ کے بڑے ممالک کے ساتھ بروقت کھیلنے کا موضع بھی ملے گا آمدنی میں بھی اچھا خاصا حصہ ملے گا۔ پاکستان کرکٹ کو اس وقت استحکام کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سب کو باہمی احترام اور برداشت کے رویے کو فروغ دیتا ہو گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے کئی ایک سابق چیئرمین تو اس حوالے سے خاصی سخت رائے رکھتے ہیں توقیر ضیاءکہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے نامزد کردہ شخص کو وقت ملنا چاہئیے تاکہ معاملات بہتر انداز میں چل سکیں اور عدم استحکام کی فضا ختم ہو‘ وہ اس معاملے پر عدالتی کارروائی کو ملکی کرکٹ کے لئے تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔ سابق چیئرمین کے مطابق موجودہ صورتحال سے جلد از جلد نکلنا نہایت ضروری ہے۔
ہماری وزیراعظم سے درخواست ہے کہ وہ ہاکی کے لئے بھی وقت نکالیں ان کو پیسے بھی دیں سرپرستی بھی کریں۔ ان کے اس رویئے سے احساس محرومی پیدا ہوتا ہے یقینًا وہ قومی کھیل کی بھی حقیقی معنوں میں سرپرستی کریں گے۔