الطاف حسین کی کامیابی پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے
الطاف حسین بھائی ایک متنازعہ سیاسی لیڈر ہیں، وہ ہزاروں میل دور بیٹھے کراچی کے معاملات پر پورا کنٹرول رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں اور ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں لانے کے لئے بے تابی سے کوشش کر رہے ہیں۔ ان سے اور ایم کیو ایم سے اختلاف ہو سکتے ہیں اور ہیں مگر ان کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے۔ قابل ذکر اور ناقابل فراموش ہونے کے لئے متنازعہ ہونا شرط ہے۔ محبوب آدمی بھی متنازع ہوتا ہے۔ اس کی تعریف کوئی اہمیت نہیں رکھتی جس پر تنقید نہ ہو۔
ایم کیو ایم کے بڑے بڑے جلسے اور جلوسوں میں ڈسپلن ہوتا ہے اور اس کی مثال سیاسی پارٹی میں نہیں ملتی۔ پارٹی لیڈر کے جلسوں میں بھی نہیں ملتی، پارٹی لیڈروں کی تقریروں میں بھی بدمزگی ہوتی ہے اور بار بار کی اپیلوں پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔ بالعموم ایسے جلسوں کے بعد چائے کی میز پر اور کھانے کے اوقات میں افراتفری، نفسانفسی اور چھینا جھپٹی مار دھاڑ بلکہ لوٹ مار کے ایسے ایسے مناظر سامنے آتے ہیں کہ دکھ ہوتا ہے مگر مزا بھی آ جاتا ہے۔ یہی حال افطاریوں کا ہے۔ مسلم لیگ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اجتماعات میں افطاری سے پہلے ہی کھانے پینے کی چیزوں پر حملہ ہو جاتا ہے اور پھر جس کے ہاتھ جو آتا ہے۔ جھولیوں میں بھر لیا جاتا ہے بلکہ جو دوسروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے ان سے بھی چھین لینے کی کوشش میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ہاتھا پائی تو معمولی بات ہے جو کچھ ہوتا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ رحیم یار خان میں تحریک انصاف کے نمبر دو لیڈر شاہ محمود قریشی کی افطاری میں باقاعدہ کرسیاں چلتی رہیں۔ بجلی کے چلتے ہوئے پنکھے بھی بطور ہتھیار استعمال کئے جاتے رہے۔ خود عمران خان کے جلسوں کے بعد جو کچھ ’’عمرانیئے‘‘ کرتے ہیں جیالے بھی توبہ توبہ کرتے ہیں جب کہ جیالے بھی ان موقعوں پر کچھ کم مظاہرہ نہیں کرتے۔ متوالے بھی بڑے شیر ہیں۔
ایسے میں ایک شاندار اور بہت بڑی ریلی ایم کیو ایم کی طرف سے پاک فوج کے ہاتھ یکجہتی کے لئے منعقد کی گئی۔ جس سے الطاف حسین بھائی نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ لاکھوں لوگوں عورتوں اور بچوں نے ایک ساتھ افطاری کی اور کھانا کھایا۔ ورنہ دوسری جگہوں پر جو پلیٹیں دوسروں کے سروں پر توڑی جاتی ہیں ایسے موقع پر افطاری پانچ دس منٹ پہلے ہی دی جاتی ہے۔ یہ ڈسپلن کی بہت بڑی مثال ہے کہ ایم کیو ایم کی افطاریوں میں واقعی افطاری ہوتی ہے۔
ڈسپلن کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ الطاف حسین بھائی نے رابطہ کمیٹی کے سینئر لوگوں کو رابطہ کمیٹی سے نکال دیا پھر معافی مانگنے پر بحال کر دیا۔ معطل ہونے والے لوگوں میں بڑے بڑے نام تھے۔ حیدر عباس رضوی قومی اسمبلی کے ممبر اور خوبصورت ادبی ذوق کے آدمی ہیں۔ ہمارے دوست ہیں۔ نسرین جلیل بھی بہت محترم سمجھی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صغیر احمد تو سندھ حکومت میں صوبائی وزیر صحت ہیں اور آج کل سیکرٹری ہیلتھ سے ان کی خاصی گڑ بڑ چل رہی ہے سیکرٹری ہیلتھ قائم علی شاہ کے داماد ہیں۔ چھوٹے بڑے حکمرانوں کے داماد جمہوریت میں بادشاہت کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس میں اب افسران بھی شامل ہو گئے ہیں۔ افسران نواز شریف کو بھی بہت عزیز ہیں پاکستان میں سب سے بڑے سیاسی داماد تو ’’صدر‘‘ زرداری ہیں مگر انہوں نے پاکستانی سیاست میں روایتی سیاستدانوں کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ جمہوری بادشاہت کے حوالے سے نواز شریف ’’صدر زرداری‘‘ کی تجویز پر عمل نہیں کر سکیں گے مگر اس بیان کی ٹائمنگز سے کانشس ضرور ہو گئے ہیں اور سعودی عرب چلے گئے ہیں۔ شائد وہاں وہاں اعتکاف بیٹھنے والے ہیں۔ تین سو سیٹوں کے جہاز میں صرف 60 آدمی گئے ہیں جن میں ان کے اور ان کے سمدھی کا سارا خاندان شامل ہے۔
ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان کو معطل کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ میٹنگ میں دیر سے پہنچے تھے۔ ہزاروں میل دور الطاف حسین بھائی کو معلوم ہو گیا کہ کس کس آدمی نے دیر کی ہے۔ ہمارے پاس ضائع کرنے کی صرف ایک چیز ہے اور وہ وقت ہے جب کہ وقت سب سے بڑی دولت ہے۔ ہمیں اس دولت کی ضرورت نہیں ہے ہمیں صرف دولت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے لوٹ مار ظلم و ستم اور کرپشن بہت ضروری ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ قائداعظمؒ کی صدارت میں ایک میٹنگ کے دوران وزیراعظم لیاقت علی کچھ منٹ کے لئے دیر سے آئے مگر تقریب شروع کر دی گئی تھی اور قائداعظمؒ نے وزیراعظم کے لئے سٹیج پر سے کرسی اٹھوا دی تھی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان ساری تقریب میں کھڑے رہے۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ الطاف حسین قائداعظمؒ کی زندگی اور تحریک پاکستان کو نگاہ میں رکھیں۔ اس شاندار تاریخ میں ہجرت کا واقعہ بھی آتا ہے۔ الطاف حسین بھائی اور ان کے ساتھی اب تک مہاجر ہیں جب کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہجر اور ہجرت کسی مشن کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ اسلام کے مہاجر اول خود پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ ہیں مگر مدینہ ان کا شہر بن گیا۔ فتح مکہ کے وقت صحابہ نے بہت ارادے کئے کہ ہم مکہ مکرمہ جائیں گے اور وہاں کچھ دن رہیں گے مگر اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد حضورؐ واپس مدینہ منورہ آ گئے اور سب صحابہؓ بھی انؐ کے ساتھ واپس آ گئے۔ یہ ہوتی ہے نسبت اور عقیدت۔ نسبت نسب سے اور عقیدت عقیدے سے بڑی ہے۔ ہماری عقیدت اور نسبت اسلام اور پاکستان کے ساتھ ہے۔ پیغمبر اعظم حضرت محمدؐ اور قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے ساتھ ہے۔ ہمارے لئے پاکستان خطہ عشق محمد ہے۔ پاکستان الطاف حسین بھائی کا منتظر ہے۔ وہ فوراً کراچی آ جائیں۔ ان کے لئے اور ایم کیو ایم کے لئے فائدہ اسی میں ہے۔ پچھلے دنوں امید لگ پڑی تھی کہ وہ واپس آ رہے ہیں۔
الطاف حسین بھائی ہمیشہ پاکستان کے حوالے سے بڑی جرات کے ساتھ سب سیاستدانوں سے پہلے اظہار خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف بات کی اور ہمیشہ پاک فوج کی حمایت کی اب آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے بھی انہوں نے کراچی کی بہت بڑی ریلی نکال کر جنرل راحیل اور پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کا غیر مشروط اظہار کیا ہے۔
رابطہ کمیٹی کے ممبر اور ایم کیو ایم پنجاب کے لیڈر افتخار رندھاوا مجھے ملنے کے لئے گھر آئے اور انگریزی کا بین الاقوامی شہرت کا رسالہ مجھے دیا جس میں الطاف حسین بھائی کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ ٹائیٹل پر ان کی تصویر بھی ہے۔ اس رسالے کے ٹائیٹل پر تصویر ایک بڑا کریڈٹ سمجھا جاتا ہے۔ الطاف بھائی کا کریڈٹ پاکستان کے ساتھ منسلک ہے۔ میں نے یہ انٹرویو پڑھا ہے۔ یہ ایک پاکستانی سوچ کا ترجمان ہے۔ اس دوران ملتان جنوبی پنجاب کے لئے ایم کیو ایم کے مخلص اور متحرک کارکن رائو خالد نے انٹرویو کا خلاصہ مجھے بھجوا دیا۔ پنجاب کے طول و عرض میں ایم کیو ایم کے لئے افتخار رندھاوا نے بہت کام کیا ہے۔ رائو خالد کی خدمات بھی جنوبی پنجاب کے حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ اب متحدہ موومنٹ پورے پاکستان میں متحرک ہے ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاجر قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ دونوں کے لئے انگریزی مخفف ایم کیو ایم ہے۔ الطاف حسین بھائی نے کہا کہ برسوں سے ایم کیو ایم کو ایک قومی پارٹی بنانے کی کوشش میں ہوں مگر ابھی اس کے لئے رکاوٹیں بہت سی ہیں۔ اب مختلف اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی ہے۔ گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر تک ہماری رسائی ممکن ہو چکی ہے۔
پاکستان میں جاگیرداروں، سرمایہ دارں اور مراعات یافتہ طبقہ کی حکومت ہے۔ عام آدمی کو ضروریات زندگی بھی نہیں ملتیں تعلیم اور صحت کے محکمے بھی عدم توجہ کا شکار ہیں۔ پاکستان میں ایک سطحی انقلاب کی باتیں ہوتی ہیں۔ حکومت کی تبدیلی کا نام انقلاب نہیں ہے۔ عام آدمی کی زندگی بدلتا اور نظام سیاست کو نظام زندگی میں تبدیل کرنا لازمی ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے لئے الطاف حسین بھائی نے پاک فوج کی کھل کر حمایت کی ہے اور جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ کراچی میں اتنی بڑی ریلی بھی پاک فوج کے ساتھ ایک عظیم الشان یکجہتی کی مثال ہے۔ الطاف حسین بھائی ایک پراسرار آدمی ہیں۔ پرکشش ہونے کے لئے پراسرار ہونا ضروری ہے۔ ایم کیو ایم کی سیاست کے لئے اندر کی بات کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ بہرحال قومی سطح پر کامیابی پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔