• news

حافظ محمد سعید نے خود کیا کہا

حافظ محمد سعید شرح صدر کے ساتھ بولے۔ ان سے کچھ اور کہلوانے کی بڑی کوشش کی گئی مگر اس میں دوستوں کو ناکامی ہوئی اور یہ ناکامی ان سب کی تھی جو اپنے کالموں اور اپنے ٹاک شوز میںمقابل کو ٹکنے نہیں دیتے، اس کی مت مار دیتے ہیں، یہاں حال یہ تھا کہ ہم حافظ محمد سعید کو گھیرنے میں ناکام رہے۔ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو بائولا ہو کر بھاگ اٹھتا مگر جو شخص کو مٹ منٹ رکھتا ہو اور جو جانتا ہوکہ اسکا مؤقف برحق ہے، اسے پچھاڑنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ایسا ہو سکا۔ تو پھر سُنتے ہیں کہ خود حافظ سعید نے اپنی بات کہاں سے شروع کی اور کیسے آگے بڑھائی اور کہاں ختم کی۔
ایک ایک مہمان سے مصافحہ اور کچھ سے بغل گیر ہونے کے بعد حافظ صاحب نے اپنی نشست سنبھالی، بسم اللہ سے گفتگو کا آغاز کیا، شروع میں ان کی ٹون دھیمی تھی مگر پھر جیسے سمندر میں تلاطم آ گیا ہو اور لہریں بپھر بپھر گئی ہوں، ان کی آواز میں جوش غالب آتا چلا گیا جس کے لئے انہوںنے خطاب مکمل کرنے کے بعد معذرت بھی کی کہ حد ادب کا تقاضہ تھا کہ وہ میڈیا کی معزز ہستیوں کے سامنے متانت اختیار کرتے مگر موضوع اور مسائل کی آگ نے ان کے لہجے کو  جھلسا دیا۔ ابتدائی کلمات میں اور پھر بار بار حافظ صاحب نے جدید دور میںمیڈیا کی اہمیت اور اسکے مؤثر کردار کا ذکر کیا۔ انہوں نے محفل میں موجود ایک سے ایک بڑھ کر تجزیہ کار، کالم نویس اور اینکر پرسن سے درخواست کی کہ وہ  لوگوں کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت میں کردار ادا کریں۔
انہوں نے تاریخ میں جھانکتے ہوئے یاد دلایا کہ کس طرح نو آبادیاتی دور میں اسلامی ممالک کی دولت کی لوٹ کھسوٹ سے اہل مغرب نے ترقی کا سفر طے کیا اور محکوم ممالک کو پسماندگی میں دھکیل دیا۔ دوسری طرف وسط ایشیائی اسلامی مملکتوں پر سوویت روس نے غلبہ پا لیا، اس طرح امت مسلمہ کی آزادی چھن گئی اور وہ اغیار کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئے، کسی نے اپنی سلامتی کے لئے اپنے آپ کو استحصالی طاقتوں کا دم چھلہ بنا لیا لیکن افغانستان پر روس کی جارحانہ یلغار نے تاریخ کا دھارا الٹ دیا، امریکہ کو زعم یہ تھا کہ یہ جنگ اس نے سعودی اور کویتی پیسے اور پاکستانی فوج کے بل پر لڑی اور جیتی مگر جب اس نے حقیقی تجزیہ کیا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ نہ تو امریکہ نے یہ جنگ لڑی اور نہ اس میں اسکی جیت ہوئی بلکہ یہ جنگ مجاہدین نے لڑی اور انہی کو فتح حاصل ہوئی اور ان مجاہدین کی کمان پاکستان کے ایک باوقار ادارے آئی ایس آئی کے ہاتھ میں تھی۔ افغان جہاد کے بعد دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ گیا اور اسلامی طاقتوںنے سر اٹھانا شروع کر دیا جن کا قلع قمع کرنے کے لئے امریکی اور یورپی حکمران کئی بار شرم الشیخ میں سر جوڑ کر بیٹھے اور یہیں انہوں نے افغانستان پر چڑھائی کا فیصلہ کر لیا تھا تاکہ مجاہدین کی کمر سر اٹھانے سے قبل ہی توڑ کر رکھ دی جائے۔ یہ فیصلہ نائن الیون سے کئی سال قبل ہوا تھا۔ یاد کیجئے کہ کس طرح صومالیہ اور سوڈان کے ارد گرد امت مسلمہ پر مظالم توڑے گئے۔ امریکہ دیکھ رہا تھا کہ عبداللہ عزام کی سرکردگی اور رہنمائی میں ایک ولولہ انگیز قوت ابھری۔ سوویت روس کی شکست نے وسط ایشیائی مسلمان ملکوں کی آزادی کی راہ کھولی۔ کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ تاجکوں اور ازبکوں نے بربادی پھیلائی لیکن ہر قوم کا اپنا ایک مزاج ہے، اصل معجزہ یہ تھا کہ روسی مسلمانوں کو کمیونسٹ چنگل سے چھٹکارہ مل گیا تھا، ستر سال تک ان کی مسجدیں تو تھیں لیکن وہاں سے اذان کی آواز نہیں گونجی، مدرسے تو تھے مگر اساتذہ اور شاگردوں سے خالی۔ جن قوموںنے حدیث مرتب کی، وہ اسے زبان پر لانے کا یارا نہیں رکھتے تھے اب آزادی کے بعد ان کے دبے ہوئے جذبے طوفان بن کر ابھرے۔ اور طوفان تو پھرطوفان ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی ملنے کے بعد حرمین شریفین میں روسی مسلمانوں کی تعداد میں یکایک اضافہ ہو گیا۔
افغانستا ن میں سوویت روس کی شکست سے امریکہ کو جو خوشی میسر آئی تھی، وہ عارضی ثابت ہوئی۔ اس کی یہ سر خوشی ہوا ہو گئی کہ اس نے عربوں کی دولت اور مسلمانوں کے خون سے اپنی حریف سپر پاور کا خاتمہ کر دیا مگر اب اس کے سامنے اسلامی جہاد کا لشکر کھڑا تھا جو اسے کرہ ارض کے ہر کونے میں چیلنج کر رہا تھا، امریکہ نے پلاننگ کی کہ اس لشکر کو اس کی نرسری افغانستان میں ہی بھسم کر کے رکھ دیا جائے، اس کے لئے وہ مناسب موقع کی تلا ش میں تھا، نائن الیون نے اسے یہ بہانہ بھی فراہم کر دیا۔ ایک طرف اس نے افغانستان پر چڑھائی کی اور دوسری طرف مجاہدین کی پشت پر وار کیا اور عراق کو بھی نشانہ بنا لیا۔ یہ ایک شاہنامہ ہے یا رزم نامہ، یہ کئی  ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ایک داستان ہے، الف لیلیٰ کی طرح اس میں سے ہر کہانی دوسری کہانی کا ورق کھول دیتی ہے۔ یہ کہانی پہاڑوں سے سر ٹکراتی ہے، کھلے میدانوںمیں اٹھکیلیاں کرتی ہے، بحرو بر میں پھنکارتی ہے۔ اور منطقی دھارے پر بہتی چلی جا رہی ہے۔
امریکہ اور یورپ کو صلیبی جنگیں نہیں بھولیں، اس نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس شیر کو خواب غفلت میں مست رکھے،اسے آپس میں الجھا دے۔ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دے، ا سنے افغان جہاد کے ثمرات کو ضائع کرنے کے لئے جہادی کمانڈروں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا مگر طالبان کی قوت ایسی ابھری کہ اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گیا، اب کہیں کوئی حکمت یار تھا نہ ربانی، نہ حقانی، نہ مجددی، بس ایک طاقت تھی اور ایک ملک تھا ، ایک وحدت نظر آتی تھی۔ امریکہ اسے پارہ پارہ کرنے کے لئے آگے بڑھا، نیٹو نے اس کا ساتھ دیا، پاکستان نے بڑی ہوشیاری سے اپنے پتے کھیلے مگر امریکہ کی نظر سے پوشیدہ نہ رہ سکے، امریکہ کو افغانستان میں شکست ہو گئی، وہ اس شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتا ہے، اس کی فوج کو سمجھتا ہے، اسکی آئی ایس آئی کوسمجھتا ہے اور اس نے بڑی عیاری سے اپنی جنگ پاکستان میں دھکیل دی ہے، اس جنگ نے امریکہ سے زیادہ پاکستان کا نقصان کیا ہے، ہمارے ساٹھ ہزار شہری شہید ہو چکے، ہماری معیشت کا جنازہ نکل گیا۔ امریکہ ہمارے کس بل نکال دینے پر تُلا ہوا ہے، اس نے بھارت کو آگے کر دیا ہے، قندھار سے لے کر نورستان تک بھارتی مراکز اصل میں دہشت گردی کے اڈے ہیں جہاں کے تربیت یافتہ ایجنٹ پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ اب بھیس بدل کر بھارتی فوج بھی افغانستان میں داخل ہو چکی ہے، امریکہ اپنی جگہ اسے علاقے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے، پاکستان کی ایٹمی قوت نہ امریکہ کے لئے قابل برداشت ہے، نہ بھارت اور اسرائیل کے لئے۔ پاکستان کو مزہ چکھانے کے لئے وہ اس جنگ کو دھکیل کر پاکستان کے اندر لے آئے ہیں، ہماری بہادر افواج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے آخری مراکز کا صفایا کر نے میں مصروف ہیں۔ فوج کو عوام سے کاٹنے کی سازش ناکام ہو گئی۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ آج فوج اور قوم ایک صف میں ہیں۔ شمالی وزیرستان کے غیور قبائل نے پاکستان کے لئے کوئی مشکلات کھڑی نہیں کیں، یہ سب سے بڑا معجزہ ہے ورنہ لوگ اس آپریشن سے کیا کیا نہیں ڈراتے تھے۔
افغانستان کی جنگ پاکستان میں دھکیل دی گئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا یہ جنگ اپنے گھر میں لڑنی ہے یا دشمن کے گھر میں جا کر لڑنا ہے، میرے نزدیک بہترین دفاع کی ضمانت ایک فیصلہ کن جارحانہ یلغار ہی ہو سکتی ہے، امریکہ نے یہ جنگ بھارتی ’’را‘‘ کے دہشت گردوں کے ذریعے ہمارے گھروںکے اند ر داخل کر دی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے علمائے کرام کی کمی نہیں جن کا کہناہے کہ امریکہ سے لڑنے کے لئے کوئی نیا نائن الیون کرنے کے بجائے امریکی پٹھووں سے لڑا جائے اور ان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے، ہمارے نوجوان اس پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے ہی اور اپنے بہن بھائیوں کا خون کر رہے ہیں۔ ہمارا میڈیا ان گمراہ نوجوانوں کے ذہن صاف کر سکتا ہے اور قوم میں یہ شعور ابھار سکتا ہے کہ بہترین دفاع جارحیت میں مضمر ہے۔ یقین کیجئے ہم اس جنگ میں تنہا نہیں ہوں گے، ہم چین کو اپنے ساتھ پائیں گے اور عالم اسلام ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا، سعودی عرب امریکی جفا اور وفا کو آزما چکا، اس کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ ادھر امریکی کمر ہمت ٹوٹ چکی، وہ پہلے عادی تھا کہ دوسروں کے پیسے اور خون سے جنگیں لڑے، اب اسے اپنی دولت اور اپنے خون کی قربانی دینا پڑی ہے اسکے حوصلے پست ہیں۔ مگر وہ پاکستان سے انتقام لینے پر تُلا ہوا ہے۔ ہم اس کو یہ موقع فراہم نہیں کر سکتے۔ ہمیں پہل کر کے اس کی جارحیت کے سامنے بند باندھنا ہو گا، ہمیں یہ لڑائی اپنے دشمنوں کے گھر جا کر لڑنا ہو گی۔ میں پھر یقین سے کہتا ہوں کہ ہم اکیلے نہیں، چین ہمارے ساتھ ہے، عالم اسلام ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرنا ہے۔
حافظ صاحب کی گفتگو کا حاصل ایک فقرہ ہے کہ ہمیںفدویانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اگر محکومی اور جبر کا انتقام لینے کے لئے نائن الیون نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن