پرویز مشرف، نواز شریف اور آصف علی زرداری ’’ڈیل‘‘
رائے ونڈ جاتی امرا میں سابق صدر آصف علی زرداری میاں نواز شریف کی طرف سے دی گئی ضیافت سے فارغ ہوئے تو انہوں نے میاں نواز شریف کو مخاطب ہو کر کہا کہ ’’میاں صاحب! ججوں کی بحالی سے پہلے ہمیں پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹا دینا چاہیے اس کے بعد 24 گھنٹوں میں جج بحال کر دئیے جائیں گے، اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) تعاون کرے تو یہ کام دنوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔‘‘ میاں نواز شریف نے آصف علی زرداری سے استفسار کیا ’’زرداری صاحب یہ سب کچھ کیوں کر ممکن ہے؟‘‘ تو آصف علی زرداری نے یقین دلایا کہ ’’میں نے تمام سٹیک ہولڈرز سمیت ان قوتوں سے بھی بات کر لی ہے جو پرویز مشرف کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔‘‘ انہوں نے میاں نواز شریف سے کہا کہ ’’آپ اپنی جماعت کے لیڈروں سے مشاورت کر لیں‘‘ جس پر میاں صاحب نے کہا کہ ’’آپ بھی اپنے لوگوں سے مشاورت کر لیں۔‘‘ اس موقع پر آصف علی زرداری نے ’’اپنے لوگوں‘‘ کے بارے میں جو کلمات کہے وہ ضبط تحریر نہیں لائے جا سکتے۔ یہی وہ الفاظ ہیں جن کا بارہا خواجہ آصف پارلیمنٹ میں ذکر کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر کو ان کا جواب دینے کی جرأت نہیں ہوئی کیونکہ وہ اپنے بارے میں پارٹی قائد کے خیالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ آصف علی زرداری کے جانے کے بعد چوہدری نثار علی خان نے میاں نواز شریف سے کہا ’’مبارک ہو آپ کے اگلے صدر آصف علی زرداری ہوں گے جس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے؟ چوہدری نثار علی خان جہاں دیدہ سیاسی شخصیت ہیں وہ ’’سیاسی نجومی یا پنڈت ‘‘ ہونے کے دعویدار تو نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں دیوار کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے آصف علی زرداری کی آنکھوں میں چمک دیکھ لی ہے وہ سب کچھ صدر بننے کے لئے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کے صدر بننے کی قیمت پر ہمیں پرویز مشرف سے جان چھوٹ جانا قبول کر لینا چاہیے۔ آصف علی زرداری سیاسی آدمی ہیں پرویز مشرف کے مقابلے میں ان سے نمٹنا آسان ہو گا۔ سو مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے طوعاً قرحاً پرویز مشرف کے مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کی حمایت کا فیصلہ کر لیا جب تک آصف علی زرداری تمام سیاسی قوتوں کو مواخذہ کی تحریک پر ایک ’’صفحہ‘‘ پر نہیں لا چکے اس وقت کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ جب اگست 2008ء میں زرداری ہائوس میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیاں پرویز مشرف کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کا تاریخی معاہدہ ’’اعلان اسلام‘‘ ہوا تو سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے یہ وہی معاہدہ جو آصف علی زرداری کے صدر بننے کی راہ میں حائل تھا لیکن جوں ہی پرویز مشرف نے تحریک مواخذہ کے دبائو میں آکر استعفیٰ دے دیا آٖصف علی زرداری نے’’ اعلان اسلام آباد‘‘ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کر دیا یہ وہی معاہدہ ہے جس کی پاسداری کے لئے آصف علی زرداری قرآن پاک پر حلف دینا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نے اس معاہدہ میں آصف علی زرداری کو قرآن پاک لانے سے روک دیا۔ اس طرح جب وہاں میاں نواز شریف نے 24 گھنٹے میں ججوں کی بحالی کی صورت میں آصف علی زرداری کو ’’بلینک چیک‘‘ دینے کی مخالفت کی تو چوہدری نثار علی خان نے اس کی مخالفت کر دی جس پر آصف علی زرداری اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ’’سخت جملوں‘‘ کا تبادلہ ہوا۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری اگلے ہی روز جسٹس افتخار محمد چوہدری کو قبل ازوقت ریٹائر کرنے کے لئے ججوں کی عمر کم کرنے کی آئینی ترمیم لے آتے اور پھر ’’بلینک چیک‘‘ کی پیشکش پر مسلم لیگ (ن) کو اس آئینی ترمیم کی حمایت کرنا پڑتی۔ چونکہ آصف علی زرداری نے صدر بننے کے لئے ایسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کر لئے تھے یہی وجہ ہے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر کے ساتھ باہر جانے کے لئے ’’محفوظ راستہ‘‘ دیا، یہ کلی طور پر آصف علی زرداری کا فیصلہ تھا جو انہوں ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا تھا اس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت شامل تھی اور نہ ہی اسے اعتماد میں لیا گیا تھا البتہ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے کہا تھا کہ انہوں نے پرویز مشرف کو ہٹانے کی کارروائی میں تمام قوتوں کو اعتماد میں لے لیا ہے میں نے آصف علی زرداری کی صدارت کے ایام میں ان سے استفسار کیا تھا کہ کیا مسندِ صدارت کا حصول ان کا مقصد حیات تھا؟ تو وہ طرح دے گئے اور کوئی واضح جوب دینے سے گریز کیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کی صدارت ختم ہوئے تقریباً 6 برس ہونے کو ہیں لیکن اب بھی وہ کسی نہ کسی حوالے سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی پاکستان میں کئی سیاسی تنازعات کا باعث ہیں۔ ان کے خلاف غداری کے مقدمہ میں ایک نئی تاریخ میں رقم ہو رہی ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ جوں جوں غداری کیس اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے جنرل مشرف کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے والوں کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ دنوں سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے اس بیان سے تو ہنگامہ ہی کھڑا ہو گیا جس میں انہوں نے دوسری سیاسی جماعتوں، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کے ساتھ جنرل (ر) پرویز مشرف کو ’محفوظ راستہ‘ دینے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے کی جانے والی ’’ڈیل‘‘ کا انکشاف کیا جس کے نتیجے میں ان کی صدارت سے علیحدگی اور بیرون ملک روانگی ممکن ہو سکی۔ سید یوسف رضاگیلانی نے مسلم لیگ (ن) کو مشورہ دیا کہ اسے جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔ ان کے بیان پر پارٹی کی جانب سے سینیٹر جہانگیر بدر اور سینیٹر فرحت اللہ بابر نے وضاحت کی اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پرویز مشرف کے معاملہ پر ایک ’’صفحہ‘‘ پر نہیں بلکہ منقسم ہے سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی یہ بیان دے کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ وہ پاکستان میں کچھ قوتوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس پر پوری قوم میں دو آرا ء تو ہو سکتی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت کا منقسم ہونا باعث حیرت ہے؟ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے تصدیق کی ہے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے پارلیمنٹ سے مواخذہ کی تحریک کا مسودہ تیار کر لیا گیا تھا لیکن پرویز مشرف کے مستعفی ہونے پر مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ مواخذہ کی تحریک کے مسودہ میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف امریکی و غیر ملکی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کے جرم کو سرفہرست رکھا گیا تھا۔ چارج شیٹ کا دستاویزی ریکارڈ کئی جگہوں پر موجود بھی ہے۔ جب دوبارہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو ’’محفوظ راستہ‘‘ دینے کی کوششیں شروع ہوئیں تو سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کو تھپکی دی اور کہا کہ ’’بلا ‘‘ شکنجے میں آیا ہے اس کو جانے نہیں دیا جائے ہم آپ کے ساتھ ہیں جنرل (ر) پرویز مشرف کو باہر بھجوانے والے آصف علی زرداری نے یہ بات وہ فائل پڑھنے کے بعد کہی جس میں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے کے لئے آنے والے بیت اللہ محسود کے آدمیوں کی آمد کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہ کرنے کے ریمارکس مو جود ہیں یہی وجہ ہے وہ جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت ڈیل کے مطابق جنرل (ر) پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے اقدام کو انڈیمنٹی دینا چاہتی تھے لیکن مسلم لیگ (ن) نے انڈیمنٹی دینے سے انکار کر دیا یہی وجہ ہے کہ آج جنرل (ر) پرویز مشرف قانون کی عدالت میں کھڑا ہے اور بیرون ملک جانے کی دہائی دے رہا ہے لہٰذا یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ’’جنرل (ر) پرویز مشرف، آصف علی زرداری ڈیل‘‘ کا نواز شریف کا حصہ نہیں تھے۔