• news

زخم ِ سفر!

ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار حاصل کرنے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔ جنرل موسیٰ نے مجھے بتایا کہ اس کی شدید مخالفت کے باوجود بھٹو اور عزیز احمد نے صدر ایوب کو چکمہ دیکر 1965ءکی جنگ شروع کرائی۔ ایوب کو کہا جنگ کشمیر تک محدود رہے گی۔ چین مداخلت کرے گا۔ ہندوستان پر ایک کمزر شخص حکمرانی کر رہا ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو ایوب بونا کہتا تھا۔ اس کا 4½ فٹ قد تھا۔
ایوب نے ہندوستان کی فوجی قوت کا اندازہ شاستری کے قد بت سے لگایا۔ جنگ کے بعد اسے جلدی احساس ہو گیا کہ جس استخوانی ہاتھ سے اس نے پنتجہ ڈالا تھا‘ اس کی گرفت میکنکی انداز میں سخت ہو رہی ہے۔ ایک بے نتیجہ جنگ جو تاشقند میں ایک معاہدے پر منتج ہوئی جس قدر غصہ ایوب کو بھٹو پر تھا اس سے زیادہ ایک جذباتی قوم کو ایوب پر تھا۔ بھٹو کو ورغلانے کا ایک نادر موقع ہاتھ آگیا۔ جلدہی بلی کو تھیلے سے باہر نکالوں گا۔ اس نے قوم سے وعدہ کیا بلی تو تھیلے سے باہر نہ آسکی‘ لیکن ایوب نکل گیا۔بھٹو ایک شاطر سیاستدان تھا۔ بیدار مغز تھا پیسے کی حد تک ایماندار تھا۔ دور رس نگاہ رکھتا تھا‘ لیکن اپنے اندر نہ جھانک سکا۔
ایک سندھی وڈیرہ اس کے خوف سے باہر نہ نکل سکا۔ اس لئے ظلم اور زیادتی کے الزام لگے۔ ہنری کسنجر نے شو میل کی رفتار سے چلتی ہوئی جس ٹرین کا ذکر کیا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کے سامنے آگیا۔ جس شخص کو بے ضرر سمجھتے ہوئے اس نے آرمی چیف لگایا تھا‘ وہ ”مضر صحت“ ثابت ہوا۔ بھٹو پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام تھا۔ نظام مصطفی کی تحریک شروع ہوئی۔ بالآخر ضیاءالحق نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جب Your Neck ormy Neck, کا سوال اٹھا تو ”سرمدخودہی“ کا بار آیا۔ بھٹو کو احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں پھانسی دیدی گئی۔ضیاءالحق نے ایک طویل عرتہ تک حکومت کی۔ اس نے غالباً شیکسپیئر کو پڑھ رکھا تھا
شاہ بننے کے بعد شاہی کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ چنانچہ قوم کو لڑانے اور تقسیم کرنے میں فرقہ واریت کو فروغ دیا۔ اس نے قومی وحدت پر ایک ایسا گہرا زخم لگایا جو آج تک مندمل نہیں ہو سکا۔ جب تک وہ ایک سوپر پاورکے ایجنڈے پر کام کرتا رہا‘ قائم رہا۔ جب دیکھا کہ کام نکل چکا ہے اور آمر کا سبو ٹوٹ کر اس کو سرمست کر رہا ہے تو جہاز گرا کر اس کا کام تمام کر دیا۔
ضیاءکے بعد میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہو گیا۔ دو بڑے ایکٹر سیاسی قومی سٹیج پر اُبھرے۔ نوازشریف نے آمریت کی گود میں پل کر سیاسی تربیت حاصل کی۔ بینظیر مظلومیت کا استعارہ بن گئی۔ کئی ”مارک انٹونی“ اس کے ہمنوا بن گئے۔ ”سیزر“ کو مارنے والا بروٹس بھی حالات کی ستر ظریفی کا شکار ہو گیا۔ دو مرتبہ بینظیر وزیراعظم بنی‘ تین مرتبہ یہ شرف میاں نوازشریف نے حاصل کیا‘ جو کمی رہ گی تھی وہ آصف زرداری نے پوری کر دی۔ فارسی زبان کا محاورہ ہے۔
آزمائے ہوئے کو پھر نہیں آزمانا چاہئے۔ لگتا ہے کہ بیس کروڑ عوام ایک قوم نہیں جانوروں کا ریوڑ ہیں۔ انہیںہانکنے کیلئے کسی لاٹھی کی بھی ضرورت نہیں۔ زبان ہی کام کر جاتی ہے۔ فریب وعدہ فرا!
دس سال تک لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ پندرہ سال میں کوئی شخص بیروزگار نہیںرہے گا۔ بیس سال میں زرمبادلہ کے ذخائر ہانگ کانگ کو شرمائیں گے۔ چار وان قانون کی حکمرانی ہوگی۔ خوشحالی ہرگھر میں ڈیرہ ڈالے گی۔ میر امن کے الفاظ میں ”راہی مسافر جنگل میں سونا اچھالتے جائیں گے کوئی نہیں پوچھے گا۔“ کیا تمہیں یقین نہیں آتا؟ بے یقینی گناہ ہے۔ کفر ہے۔ ثبوت چاہتے ہو؟ ہمیں ہی دیکھ لو! ایک سے دو دو سے چار‘ چار سے بیس۔ ملیں‘ فیکٹریاں‘ محلات‘ سب محنت کا پھل ہیں۔ محنت کی عظمت کا ثبوت ہیں۔ عجیب ناشکرے لوگ ہو! ہمارے ایثار کو دیکھو یورپ کے عشرت کدے‘ سپین کے محلات‘ لندن کے لگژری اپارٹمنٹ‘ سوئٹرزلینڈ کے بینک بیلنس‘ سب چھوڑ چھاڑ کر صرف تمہاری خدمت کیلئے ہم لوگ یہاں آئے ہیں محض تمہاری خاطر! کیا ہوا جو اس ملک میں گرمی بہت پڑتی ہے۔ کیا ہوا جو چہرے گردوغبار میں اٹ جاتے ہیں۔ کیا ہوا جو غربت کے ہاتھوں لوگ آئے روزخودکشیاں کرتے ہیں۔ آخر ہے تو اپنا ملک۔ اپنے لوگ جب کل کا مو¿رخ تاریخ لکھے گا تو ہماری قربانیاں‘ ایثار اور خلوص کا جلی حروف میں ذکر ہوگا۔ لفظ لو دیںگے ہر لفظ ایک ورق ہوگا اور ہر ورق ایک زریں باب! ....

ای پیپر-دی نیشن